Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Aye Seyahat Tere Anjam Pe Rona Aaya

Aye Seyahat Tere Anjam Pe Rona Aaya

وفاقی کابینہ نے" معاشی استحکام " کے لیے سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ بانڈ ز جن اثاثوں پر جاری ہوں گے ان میں پی ٹی ڈی سی کے غیر فعال ہوٹل بھی شامل ہیں۔ سوال اب سکوک بانڈز کا نہیں، سوال یہ ہے کہ پاکستان ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے اتنے شاندار اور خوبصورت ہوٹلز غیر فعال کیوں ہیں؟ دنیا سیاحت سے اربوں ڈالر کما رہی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سے پی ٹی ڈی سی کے چند ہوٹلز نہیں چلائے جا سکے اور ہم نے انہیں بھوت بنگلہ بنا دیا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو ویران پڑے ان ہوٹلز کے باہر ایک بورڈ نصب کر دیا جائے کہ آئیے دیکھیے ہم سیاحت کی بربادی کے لیے کیسے کوشاں ہیں؟

ایک زمانہ تھا، سیاسی کارکنان کے لیے دل میں بہت احترام تھا کہ اس برفاب معاشرے میں یہی ہیں جو ملکی حالات پر سوچتے ہیں اور کڑھتے ہیں۔ لیکن اب آ کر معلوم ہوا کہ یہ شعور نہیں یہ مال غنیمت کی ہوس ہے کہ اپنی پارٹی سے جڑے رہو اور اس کے لیے بیگار کرتے رہو، پھر جب وہ اقتدار میں آئے گی تو سود سمیت منافع صول کر لیں گے۔ حکومتوں کے بدلتے ہی جو نئی نئی تعیناتیاں ہوتی ہیں، قانون کی دنیا میں ہوں یا بظاہر علم و فضل کی دنیا میں، وہ اصل میں یہی مال غنیمت ہوتا ہے جس کی امید کی ڈوری سے یہ کارکنان نما اہل ہنر بندھے ہوتے ہیں۔

چنانچہ جب کوئی حکومت فیصلہ کرتی ہے تو اس فیصلے کو درست اور غلط کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا، بلکہ اسے عصبیت کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی جماعت نے اپنے اقتدار میں کوئی غلط فیصلہ کیا ہو اور اس پر اسی جماعت کے کارکنان اور رہنمائوں کی جانب سے بامعنی تنقید ہوئی ہو۔ تنقید صرف دوسرں کے لیے ہوتی ہے جن کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر نظر آتا ہے۔ اقتدار کی سیاست سے لپٹا یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہمارے اخلاقی وجود کو لاغر کر دیا ہے۔

یہی وہ تقسیم تھی کہ جب عمران حکومت نے پی ٹی ڈی سی ہوٹل بند کرنے کا اعلان کیا تو سوچے سمجھے بغیر اس فیصلے کی تائید کی گئی۔ اصول یہی تھا کہ عمران جو کرتا ہے درست کرتا ہے اور یہی وہ تقسیم ہے کہ آج جب شہباز شریف حکومت ان ہوٹلوں کو بحال کرکے سیاحتی امکانات تلاش کرنے کی بجائے انہیں رہن رکھ کر قرض لینے جا رہی ہے تو ساری پی ڈی ایم میں کراچی سے خیبر تک اتفاق پایا جاتا ہے کہ شہباز شریف جو کرتا ہے درست کرتا ہے۔ جب غلط اور درست کا پیمانہ سیاسی عصبیت ہو تو پھر دیوار سے سر ہی پھوڑا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کا ایک جہان آباد ہے۔ لیکن ہم نے اپنے ہاتھوں سے اسے برباد کر رکھا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کی آمد تو ویسے ہی محدود ہو چکی۔ کچھ حالات ایسے تھے اور کچھ ہمارے سفارت خانوں کی نا اہلی۔ آپ دنیا کے کسی پاکستانی سفارت خانے کو ای میل کر کے دیکھ لیجیے کہ میں پاکستان جانا چاہتا ہوں وہاں کے سیاحتی مقامات کے بارے میں کچھ رہنمائی کر دیجیے، سالوں بعد بھی ڈنگ کا جواب مل جائے تو بتائیے گا۔ دوسری جانب بھارت ہے وہ دنیا بھر میں اپنے سیاحتی امکانات کے حوالے سے ہمہ جہت مہم چلائے ہوئے ہے۔ ہم ابھی تک اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ سیاحت میں کتنے غیر معمولی معاشی امکانات چھپے ہوتے ہیں۔

مقامی سیاحت بھی افراتفری اور عبرت کا مجموعہ بن چکی ہے۔ ہماری سیاحت کی کل متاع کا غالب حصہ مری سوات اور ناران پر مشتمل ہے۔ نہ کسی نے سیاح کو بتانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ ان مقامات کے علاوہ اور کیسے کیسے شاندار مقامات موجود ہیں جہاں آدمی جائے تو ششدر رہ جائے اور نہ کسی نے کہیں بھی کوئی منظم انداز سے سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک زمانہ تھا ناران اور خانس پور خاموش سی بستیاں ہوا کرتی تھیں۔ اب جس کا جہاں جی چاہتا ہے بے ڈھنگا سا بد بودار سا ہوٹل کھڑا کر دیتا ہے۔ ناران تو اس وقت راجہ بازار بن چکا ہے۔ سہولیات نہ ہونے کے برابر اور قیمتیں آسمانوں کو چھوتی۔ مری میں اس ساری بدذوقی کے ساتھ ساتھ بد سلوکی اور بدزبانی کی شکایات الگ سے کی جاتی ہیں۔

ہر طرف غلاظت بکھری ہوتی ہے۔ گلیات کو اس میں استثناء ہے اور یہاں صفائی کا بہترین انتظام ہے لیکن دیر مقامات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ مہوڈنڈ جھیل میں بچوں کے پیمپر تیر رہے ہوتے ہیں، جھیل سیف الملوک ریپرز، شاپرز اور پیپمپرز سے آلودہ ہو چکی ہے، فیری میڈوز جیسی خاموشی میں ہوٹل بننا شروع ہو گئے ہیں اور چراگاہ میں گندگی پڑی ہوتی ہے۔ بیسل جیسا شاندار مقام آلودہ کر دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے خلق خدا سیاحت کو نہیں نکلی، فطرت سے انتقام لینے نکلی ہے۔

آپ سیاحت کو نکلیں، فیملی کے لیے راستے میں کہیں کوئی ٹائلٹ نہیں ملے گا۔ مرد حضرات تو جہاں چاہیں غلاظت پھیلانے بیٹھ جائیں گے لیکن اس معاشرے نے ابھی یہ تہذیب نہیں کہ مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے مسائل کو بھی سمجھ سکے۔ گلیات کی طرح سڑک کنارے فیملی ٹائلٹس بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر سیاحت کا شعور ہو۔ شعور کا مگر یہ عالم ہے کہ اوباشوں کی ٹولیاں پھر رہی ہوتی ہیں اور سر راہ اونچی آواز میں میوزک لگا کر جھومنا شروع کر دیتی ہیں۔ کوئی اعتراض کرے تو صوبائیت اور لسانیت خطرے میں پڑ جاتی ہے کہ ہمارے کلچر پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے۔ کلچر سب کا قابل احترام ہے لیکن کلچر کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ موقع مقام دیکھے بغیر بے ہنگم انداز سے جھومنا شروع کر دیا جائے۔

تنگ، تاریک اور گندے ہوٹلز، نہ حسن تعمیر ہے نہ کوئی ذوق اور نفاست۔ بس مرغیوں کے لیے ڈربے بنا دیے گئے ہیں۔ سیاحتی مقامات ہیں اور لوگوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے بستی میں صرف ایک اے ٹی ایم ہے۔ جس کے باہر درجنوں لوگ سارا دن لائن میں لگے رہتے ہیں۔ کھانا مہنگا مگر ایسا بد ذائقہ کہ الامان۔ کھا کر آپ ہضم کر جائیں تو آپ کی قسمت۔ بظاہر اچھے ہوٹلوں میں بھی بستر وں میں سے بو۔ بندہ کس کس مسئلے کو روئے۔

ایسے میں یہ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل تھے، جو فیملیوں کی پناہ گاہ تھے۔ صاف ستھرا شاندار ماحول اور بہترین کھانا۔ ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا کہ بکنگ کے بغیر اچانک جانا پڑا اور پی ٹی ڈی سی میں جگہ نہ مل سکی۔ مجبوری کے عالم میں رہائش کہیں اور رکھی لیکن کھانا کھانے کے لیے پی ٹی ڈی سی ہی جاتے رہے۔ پی ٹی ڈی سی ناران کا ہو، بالاکوٹ کا ہو، مالم جبہ کا ہو، سکردو کا ہو یا ایوبیہ کا، یہ سب عالم میں انتخاب تھے۔ یہ ایسے گوشہ عافیت تھے جن میں داخل ہوتے ہیں سفر کی تھکاوٹ دور ہو جاتی تھی۔ بستر صاف، عملہ خوش اخلاق، کھانا بہترین، برتن دھلے ہوئے، ماحول میں سکینت۔

افسوس ایک حکومت نے انہیں اجاڑ دیا دوسری انہیں آباد کرنے کی بجائے رہن رکھنے جا رہی ہے۔ اے سیاحت، ترے انجام پہ رونا آیا۔