Sunday, 13 July 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Social Media Ki Aag

    Social Media Ki Aag

    کالم لکھنے بیٹھا تو ارادہ تھا کہ چند روز بعد عیدالاضحی کی آمد آمد ہے تو اس حوالے سے کچھ لکھا جائے۔ میرا خیال تھا یہ لکھوں کہ کس طرح وطن عزیز پاکستان میں بڑھتی مہنگائی اور معاشی بد حالی کے باعث غربت میں گراں قدر اضافے اور دوسری طرف قربانی کے جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کے نتیجے میں جانے مزید کتنے ہزار سفید پوش اور غریب افراد اور گھرانے اس مرتبہ بھی سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے محروم ہو جائیں گے۔

    سوچا کہ یہ بھی لکھا جائے کہ صاحبان مقام و مرتبہ اور حیثیت و حشمت بھلے شوق سے بیش قیمت اونٹ، قد آور مہنگے بیل، موٹے دیدہ زیب دنبے اور خوبرو بکرے قربانی کی نیت سے خرید کر انہیں اللہ کریم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قربان کردیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اقوال اور اعمال میں کردار ابراہیمی کا رنگ بھی نمایاں کریں۔ مگر میں ابھی اپنے موضوع کے خدو خال واضح کرنے کا اہتمام کر رہا تھا کہ سوشل میڈیا پر اچانک ایک اندوہناک سانحہ نے کہرام برپا کردیا جس کے باعث کافی دیر مجھ پر سکتے کی کیفیت طاری رہی اور میرے سارے خیالات منتشر ہوگئے۔

    ابتدائی معلومات سے پتہ چلا کہ یہ چترال کے ایک معتبر خاندان کی سترہ سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے سفاکانہ قتل کے خبر تھی جسے مبینہ طور پر سوموار اور منگل کی درمیانی شب اسلام آباد کے رہائشی علاقے سیکٹر جی تیرہ میں اس کے گھر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ اپنی سترہویں سالگرہ کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی۔ اسے زخمی حالت میں قریبی ہسپتال لایا گیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی۔ اس لرزہ خیز قتل کی خبر چند لمحات میں وائرل ہوئی اور اس کے ساتھ اس ننھی سی پھول نما بچی کی معصومیت سے لبریز تصاویر نے اس کی دردناک موت پر رنج و الم کے جذبات کا طوفان برپا کر دیا۔

    میں نے خود اسے پہلی مرتبہ اس کی دلربا تصاویر کے درمیان ابدی نیند سوئے دیکھا تو کلیجہ منہ میں آگیا۔ میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ دست قاتل نے کس قدر بے رحمی سے اس معصوم سے جینے کا حق چھین لیا تھا۔ وہ اپنے خواب نگر کے گلستان میں کھلے ہوئے گلابوں پر رقص کرتی ہوئی تتلی تھی جو چترال کی سنگلاخ وادیوں سے اڑان بھر کر دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ خوبصورت وفاقی دارالحکومت کو جائے امان جان کر اسلام آباد میں زندگی کے رنگ بکھیرنے آن پہنچی تھی۔

    دراصل وہ ہمارے سماج میں چہار سو پھیلے مایوسی اور بیزاری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کا استعارہ تھی۔ اس کے مسکراتے لبوں پر زندگی خود رقصاں دکھائی دیتی تو گویا اس کی آنکھوں میں روشنیوں کے جانے کتنے شہر آباد ہو جاتے۔ اس کے رخساروں پر گلاب کھلتے تو ان کی خوشبو اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ سمیت انسٹا گرام اور ٹک ٹاک پر اس کے لاکھوں مداحوں کو اپنے دلنشیں حصار میں جکڑ لیتی تھی۔ صرف سترہ سال کی مختصر سی مدت میں اس نے لاکھوں افراد کو اپنی معصومانہ اداؤں سے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور شاید یہی مقبولیت اسے بے وقت موت کے گھاٹ اتارنے کا سبب بن گئی۔

    مگر یہ کوئی معمولی واقعہ ہے نہ کوئی عام قتل۔ یہ ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا ایک دلخراش سانحہ ہے جو اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ ظاہر ہے اسلام آباد کے متعلقہ تھانہ سنبل کی پولیس نے حسب ضابطہ اپنی کارروائی کا آغاز کر دیا ہوگا اور وہ چند دنوں میں اس بہیمانہ قتل کے اصل محرکات اور گھناونے جرم میں شامل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں کچھ عرصہ قبل قتل ہونے والی ایک اور ٹک ٹاکر تھل کی شہزادی کی طرح ثناء یوسف کو بھی، غیرت کے خونی شیش ناگ تو نہیں نگل گئے یا یہ بھی ممکن ہے اس کی بے پناہ شہرت کے باعث حسد کی آگ میں جلنے والوں نے اس کی زندگی تمام کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔

    دوران تفتیش ممکنہ طور اس امر پر بھی توجہ دی جائے گی کہ کیا مقتولہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث کچھ عناصر موجود تھے جو اسے کسی غیر اخلاقی فعل کے لئے مجبور کر رہے تھے اور اس کے انکار کے باعث انہوں نے اس پر قافیہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ سترہ سالہ ثناء یوسف اپنے والدین اور دیگر اہل خانہ کی زندگیوں کو ہمیشہ کے لئے بے پناہ دکھوں سے دوچار کر گئی ہے اور ان کے قلب و روح پر ایسے گھاؤ لگا کر گئی ہے جن کی تاب لانا آسان ہرگز نہیں۔

    بلاشبہ جہاں سوشل میڈیا پر واضح اکثریت اس سفاکیت پر نوحہ کناں ہے وہاں کچھ خود ساختہ دانشور اور اخلاقیات کے لٹھ بردار علمبردار بھانت بھانت کے راگ بھی الاپ رہے ہیں۔ وہ کس طرح کا لباس زیبِ تن کرتی تھی اور ٹک ٹاک پر کیسی ویڈیوز بناتی تھی اسے زیر بحث ضرور لائیں مگر یہ مت بھولیں کہ وہ انسان تھی اور کسی کی بیٹی تھی۔ اصلاح احوال کرنا، برائی کی نشان دہی کرنا اور نصیحت آمیز گفتگو کرنا آپکا حق ہے لیکن کسی کی جان لینا اور پھر اس سفاکانہ فعل کے دفاع میں بے سروپا جواز تلاش کرنا آپ کا حق ہرگز نہیں۔

    دوسری طرف یہ امر بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر بے حیائی اور اخلاق سوز حرکات نے اک طوفان اٹھا رکھا ہے جس میں جسم کے نمائش سے لیکر جسم فروشی تک کے مکروہ دھندوں کا کاروبار بام عروج پر پہنچ چکا ہے۔ در اصل سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر مبنی یہ آگ گھر گھر بھڑک اٹھی ہے جس نے پوری دنیا کی طرح ہمارے معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب اس آگ کے خوفناک حصار کو توڑنا اور اپنی نوجوان نسل کو ان اخلاق سوز حرکات و سکنات سے محفوظ بنانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے ورنہ آئے روز کوئی نہ کوئی ثناء یوسف اس آگ کا ایندھن بنتی رہے گی۔