ہر ابتدا اپنی انتہا کیطرف بڑھتی رہتی ہے۔ جیسے انسان کی طبعی زندگی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے اور ایک جیتا جاگتا شخص اچانک پردہ شہود سے غائب ہو کر کسی گمنام وادی میں منتقل ہو جاتا ہے بلکل ایسے ہی سرکاری نوکری بھی خاتمے سے دوچار ہو جاتی ہے اور یوں جاہ و حشمت سے مزین افسر شاہی کے ایوانوں میں اترا کر چلنے والے صاحبان اختیار اک روز ریٹائر ہو کر پرانے اخبار کی طرح ردی کے کاغذ میں بدل جاتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جس طرح عام طور پر ہم زندگی کی رعنائیوں میں اس قدر مگن رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمیشہ نہیں رہنی بعین اسی طرح افسران کی اکثریت طاقت و اختیارات کے نشے میں مدہوش ہو جاتی ہے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کا خیال تک نہیں آتا۔
جس طرح موت اس مرنے والے شخص کی شخصیت و کردار پر سب سے ٹھوس دلیل بن جاتی ہے اسی طرح ریٹائرمنٹ کا دن اس صاحب بہادر کی تمام ملازمت کے نامہ اعمال کا عکاس ہوتا ہے۔ میں نے اپنی سرکاری ملازمت کے دوران درجنوں افسران بالا و زیریں کو ریٹائر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کچھ عالی مرتبت صاحبان کی ریٹائرمنٹ پر اسی دفتر میں جشن کا ماحول بھی دیکھا ہے اور لوگوں کے چہروں پر شادمانی کے شادیانے بجتے دیکھے ہیں جبکہ دوسری طرف چہار سو پھیلے افسردگی و اداسی کے سائے بھی دیکھ رکھے ہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت، نیک نامی، رفقاء کار سے حسن سلوک اور عوام الناس سے ہمدردی برتنے والے افسر کا چہرہ ریٹائرمنٹ کے موقع پر طمانیت سے سرشار جبکہ دفتر کا ماحول غمناک ہوتا ہے۔
دوسری طرف، بد کلام، بد کردار اور مغرور صاحب بہادر کے چہرے پر ملال کے اثرات عیاں ہوتے ہیں مگر دفتر کے درودیوار پر خوشی کی عبارت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ عوامی مزاج رکھنے والے صاحب کردار افسر کی ملازمت کے آخری ایام میں الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ریٹائرمنٹ والے دن تک جاری و ساری رہتا ہے جبکہ دوسری جانب مال و زر کے متمنی صاحب کے آخری روز کی ترجیحات میں لین دین کے معاملات نپٹانا سر فہرست ہوتا ہے۔
کئی مرتبہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ موصوف کی ریٹائرمنٹ والے دن وہ ماتحت ملازمین غیر اعلانیہ چھٹی کرکے اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جنہیں غیر معمولی وصولیوں کا ہدف دیا گیا ہو۔ یہ بھی سچ ہے کہ عمومی طور پر ریٹائرمنٹ کے روز موصوف کو سرکاری طور پر آخری مرتبہ عزت ملتی ہے جبکہ اس کے بعد کے سلوک کا انحصار اس اعلیٰ حضرت کے اپنے رویے پر ہوتا ہے جو اس نے دوران ملازمت اپنے رفقاء کار اور عوام الناس سے روا رکھا ہوتا یے۔
ریٹائرمنٹ کے موقع پر کی جانے والی تقاریر بڑی دلچسپ اور کسی حد تک مضحکہ خیز ہوتی ہیں کیونکہ ان میں چاپلوسی، خوشامد اور غیر ضروری ستائش کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ مقررین کا انتخاب بھی ریٹائر ہونے والے صاحب بہادر کی مرضی سے کیا جاتا ہے۔ کئی حضرات اپنے جوش خطابت میں موصوف کی وہ خوبیاں بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں جو خود موصوف نے بھی پہلی مرتبہ سنی ہوتی ہیں۔ ایسے موقع پر اگرچہ عموماً ماحول میں سنجیدگی اور اداسی کا عنصر غالب ہوتا ہے مگر ایسی لچھے دار تقاریر کے باعث مزاح کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں اور کئی سنجیدہ مزاج صاحبان کے لئے اپنی ہنسی کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کچھ تقاریر میں موصوف کی پیشہ ورانہ زندگی اور ذاتی اوصاف کے نمایاں گوشوں کو تعریفی کلمات کے پہناوے پہنا کر شرکاء محفل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ مقررین موصوف کے ساتھ اپنی گہری وابستگی اور لمبی رفاقت پر مشتمل واقعات اور یادوں پر مبنی قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں جن کا مقصد اس کی شخصیت و کردار کی عمدہ انداز میں تصویر کشی ہوتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ جانے والوں سے فرقت کے لمحات میں گلے، شکوے اور شکائتیں نہیں کی جا سکتیں۔ ریٹائرمنٹ دراصل سرکاری ملازمت کی موت ہوا کرتی ہے اور جس طرح مرنے والے سے تمام رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں اسی طرح ریٹائر ہونے والی شخصیت سے بھی تمام سرکاری نوعیت کے معاملات ختم ہو جاتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کی تقریب میں سب سے آخری تقریر ریٹائر ہونے والے صاحب بہادر کی ہوتی ہے۔ اس دوران یقینی طور پر موصوف کے سامنے تین سے چار دہائیوں پر محیط اس کی سرکاری ملازمت کا وہ پورا عہد تر وتازہ دکھائی دینے لگتا ہے جس میں کئی کلمات وہ بھی ادا ہوئے جو نہیں بولے جانے چاہئیں تھے اور درجنوں امور جن کی انجام دہی میں کوتاہی، مجرمانہ خاموشی یا غفلت کا دانستہ یا غیر دانستہ ارتکاب کیا گیا وہ سب کچھ سامنے والی دیوار پر ایسے جلی حروف میں لکھا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف اپنے فرائض منصبی پوری دیانت داری اور احساس ذمہ داری سے انجام دینے والے صاحب کردار افسر کی تقریر کے حرف حرف میں عاجزی، اظہار تشکر اور اطمینان کے عناصر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
موصوف کی تقریر کے بعد اس کو خصوصی طور پر تیار کروائی گئی شیلڈ پیش کی جاتی ہے اور یوں بعد از کلام معاملہ طعام ما حاضر پر منتج ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی لاکھ برائیاں اپنی جگہ مگر اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی بدولت اب ریٹائر ہونے والے عام ملازم کو بھی پورے پروٹوکول سے رخصت کیا جاتا ہے، پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور غیر معمولی عزت و احترام سے الوداع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سارا کھیل کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر اسے پوری آب و تاب سے وائرل کیا جاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ریٹائرمنٹ کے اگلے روز وہ شخص اپنی پینشن کی فائل ہاتھ میں تھامے اسی دفتر کے صدر دروازے پر روک لیا جاتا ہے کیونکہ اب وہ منظر کسی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہیں ہونا۔ یوں موصوف پر ریٹائرمنٹ کے اصل مفاہیم و معانی آشکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔