Thursday, 05 June 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Qalandar Ki Sikandar

    Qalandar Ki Sikandar

    یہ کوئی فلمی کہانی نہیں اور نہ ہی کسی افسانوی کردار کا تذکرہ ہے بلکہ یہ جیتی جاگتی حقیقت پر مبنی ایک ناقابل یقین واقعہ ہے جو ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا اور جس نے دنیائے کرکٹ کے تمام مبصرین، شائقین اور کھلاڑیوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔

    دراصل یہ منفرد سفر عزم صمیم اور عمل پیہم کی ایک ہوشربا داستان بھی ہے اور خلوص نیت اور فولادی قوت ارادی کی کرشماتی سچائی کا مظہر بھی۔ یہ ڈرامائی کہانی گزشتہ ہفتے کے روز برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں شام ساڑھے پانچ بجے شروع ہوئی جہاں زمبابوے اور برطانیہ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان جاری ٹیسٹ میچ کا اختتام ہوا تو زمبابوے کی ٹیم میں شامل پاکستانی نژاد نوجوان شاندار آل راؤنڈر جو پاکستان سپر لیگ کی ہر دلعزیز ٹیم لاہور قلندر کی نمائندگی بھی کرتے ہیں انہیں رابطہ کرکے ہنگامی طور پر اگلے روز لاہور قلندر اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان ہونے والے فائنل میچ کے لئے ہر صورت پاکستان پہنچنے کے لئے کہا گیا۔

    اسے یہ بھی بتایا گیا کہ چند گھنٹوں کے بعد برطانوی وقت کے مطابق رات ساڑھے نو بجے برمنگھم سے دوبئی جانے والی پرواز پر اس کی ٹکٹ بھی بک کروادی گئی تھی۔ ان ہنگامی حالات میں بزنس کلاس ٹکٹ کا ملنا ممکن نہیں تھا لہذا اسے محض اکانومی کلاس میں سفر کرنا پڑا۔ مگر اس شیر دل نوجوان نے یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کیا اور فوراً ڈریسنگ روم سے سامان پیک کرنے کی بجائے محض اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈالا۔ اس نے ایک دوست کو گاڑی لانے کا کہا اور درخواست کی کہ وہ اسے جلد از جلد برمنگھم انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچا دے۔ یوں نوٹنگھم سے برمنگھم کا سفر ڈیرھ گھنٹے میں طے ہوا اور وہ ساڑھے نو بجے رات دوبئی جانے والی پرواز میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

    یہاں پر یہ امر بھی بتانا ضروری ہے کہ شاندار کارکردگی کے حامل اس آل راؤنڈر نے اسی روز 24 اوورز کے لگ بھگ باؤلنگ کی اور 20 اوورز تک بیٹنگ بھی کی تھی۔ رات کا کھانا اس نے برمنگھم سے اڑان بھرنے کے بعد ہوائی جہاز میں کھایا اور اگلی صبح ناشتہ دوبئی پہنچ کر کیا۔ وہاں ایک اور سفر اس کا منتظر تھا کیونکہ اس کی لاہور کے لئے فلائٹ کا انتظام ابو ظہبی سے ممکن بنایا گیا تھا لہٰذا وہ دو بئی سے بذریعہ کار ابو ظہبی روانہ ہوا اور لگ بھگ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد وہاں پہنچ گیا۔

    اس نے دوپہر کا کھانا ابو ظہبی تناول کیا اور لاہور جانے والی فلائٹ میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق شام چھ بج کر پچاس منٹ پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ ہوئی تو لاہور قلندر کی انتظامیہ نے فائنل میچ کے لئے سات بجے شام ٹاس سے دس منٹ قبل سکندر رضا کا نام ٹیم میں شامل کر لیا۔ یہ بلند ہمت جوان لگ بھگ اٹھارہ گھنٹے کے صبر آزما سفر کے بعد ایئرپورٹ سے سیدھا قذافی سٹیڈیم پہنچا اور لاہور قلندر کی کٹ پہن کر سات بج کر پچیس منٹ ہزاروں شائقین کی تالیوں کی گونج میں فائنل میچ سے قبل قومی ترانے کے لئے دیگر ساتھیوں کے ساتھ گراؤنڈ میں موجود تھا۔

    قذافی سٹیڈیم میں ٹھیک ساڑھے سات بجے شام پاکستان سپر لیگ کا یہ سنسنی خیز فائنل میچ شروع ہوا۔ سکندر رضا نے اپنے چار اوورز میں روسو کی اہم وکٹ لی اور اس کے علاوہ شاہین آفریدی کی گیند پر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے سب سے زیادہ سکور بنانے والے حسن نواز کا شاندار کیچ پکڑ کر اسے پویلین کی راہ دکھائی۔ مگر اس اہم ترین میچ میں سکندر رضا کا سب سے نمایاں کردار اس وقت شروع ہوا جب آخری تین اوورز میں لاہور قلندر کے لئے میچ جیتنا مشکل نظر آرہا تھا۔ مگر اس نے کو شل پریرا کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کے لئے ریکارڈ ساز شراکت داری قائم کرتے ہوئے صرف انیس گیندوں پر انسٹھ سکور کرکے شائقین کرکٹ سے خوب داد وتحسین وصول کی۔

    اس نے اپنی جارحانہ اننگز کا آغاز محمد عامر جیسے خطرناک باؤلر کی پہلی دو گیندوں پر زور دار چوکے اور چھکے سے کیا اور صرف سات گیندوں پر بائیس رنز کی دھواں دھار اننگز کھیلتے ہوئے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ممکنہ جیت کا خواب چکنا چور کر دیا اور یوں اپنی ٹیم لاہور قلندر کی پی ایس ایل میں مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی یقینی بنانے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا۔

    اس امر میں کوئی شک نہیں کہ لاہور قلندر کی اس شاندار کامیابی کے پیچھے پوری ٹیم کی مجموعی کارکردگی اور ٹیم سپرٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے حسن نواز نے چھہتر رنز کی ایک دلکش اننگز کھیلتے ہوئے اپنی ٹیم کے لئے ایک قابل دفاع ہدف مقرر کرنے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ تمام قابل تحسین انفرادی کارکردگیاں اپنی جگہ مگر جہاں سکندر رضا کی آل راؤنڈر پرفامنس نے لاہور قلندر کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا وہاں اس نوجوان کھلاڑی کی کھیل سیسچی لگن اور اپنی ٹیم کے لئے بے مثال قربانی نے اسے پی ایس ایل کا حقیقی ہیرو بنا ڈالا ہے۔ جسے کرکٹ کی تاریخ میں ایک جادوئی کہانی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ لاہور قلندر کے اس سکندر نے عزم و استقلال کا استعارہ بن کر ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں کر دی کہ ہمتِ مرداں مدد خدا۔ بقول شاعر۔

    جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
    جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے