خلیل جبران نے سچ ہی تو کہا تھا کہ بلاشبہ لفظ ماں انسانی ہونٹوں سے ادا ہونے والا سب سے میٹھا بول ہے۔ ماں اپنی اولاد کی خوشی اور خوشحالی کے لئے ان کی پیدائش سے لے کر پرورش، بچپن سے لے کر بلوغت اور بڑھاپے تک اپنا تن من دھن سب کچھ وار دیتی ہے۔ وہ اپنی ذہنی پریشانی، جسمانی بیماری اور مالی تنگ دستی اپنے بچوں سے اس لئے پوشیدہ رکھتی ہے کہ کہیں وہ پریشاں نہ ہو جائیں۔ دوسری طرف وہ اپنی اولاد کی چھوٹی سی پریشانی پر تلملا اٹھتی ہے اور ان کی راحت اور سکون کو یقینی بنانے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔
ماں کی دعاؤں میں خالق دوجہاں کی تمام نعمتوں اور رحمتوں کے خزانے پنہاں ہیں جبکہ دنیا بھر کی تمام بلاؤں سے تحفظ کی ضمانت موجود ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جس کے پاس ماں ہے اور اس سے زیادہ خوش قسمت وہ ہے جس کی تابع فرمانی کی بدولت اس سے اس کی ماں خوش ہے۔ دوسری طرف بد نصیب وہ ہے جس کے پاس ماں جیسی نعمت بے پایاں میسر نہیں مگر اس سے زیادہ بد بخت وہ ہے جس کے پاس ماں تو ہے مگر وہ اس کی خدمت، قربت اور محبت سے محروم ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ماؤں کا عالمی دن منانے کا خیال کب، کسے اور کیوں آیا ہوگا؟ کیا مائیں ہمار ے اظہار تشکر کی محتاج ہیں؟ کیا ماؤں کی دعائیں اور نیک تمنائیں ہم سے اپنے بے لوث ہونے کا خراج مانگتی ہیں؟ کیا ہم اپنی ماؤں کی لازوال محبت اور بے پناہ شفقت کو ناپ تول کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ان کی بے لوث محبتوں کو شمار کرکے انہیں قسط قسط واپس لوٹا سکتے ہیں؟ کیا ہم نے ماؤں کو سال بھر میں محض ایک مخصوص دن یاد کرنا ہے، ان کی قربانیوں کا احاطہ کرنا ہے اور انہیں رسمی طور پر اپنی تابع فرمانی کا یقین دلانا ہے؟ ہاں مگر ان تمام سوالات کے جوابات ڈھونڈنے نکلیں تو ایک ہی ٹھوس وجہ سامنے آتی ہے کہ مغربی معاشروں میں اولاد بالغ ہونے کے ساتھ ہی ماں باپ سے آزاد ہو جاتی ہے اور ان کے معاش سمیت تمام تر معاملات کی ذمہ داریاں ان ممالک کی ریاست کے سپرد ہو جاتیں ہیں۔ اس طرح والدین اپنے بچوں کی تعلیم، تربیت، ملازمت، شادی اور پھر ان کے ہونے والے بچوں کی جملہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں تو والدین اور اولاد کے درمیان خلیج گہری ہوتی جاتی ہے۔ خونی رشتوں اور جذباتی تعلقات پر وقت کی گرد بیٹھ جائے تو سرد مہری ان قیمتی رشتوں کو مار دیتی ہے۔
دوسری طرف والدین بڑھاپے میں اولڈ ہومز کے درودیوار کو اپنا مسکن بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں ان کی نگاہیں اپنی اولاد کی شکل دیکھنے کو ترس جاتیں ہیں جو بالغ ہونے کے ساتھ ہی پرندوں کیطرح اپنے گھونسلوں سے اڑان بھر کر غم جاناں اور غم دوراں کے اجنبی راستوں کی دھول میں کھو جاتے ہیں۔ ان مادہ پرست معاشروں میں ماؤں کا عالمی دن منانے کی ضرورت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چلو سال میں ایک مرتبہ کچھ وقت ماؤں کے ساتھ گزارہ جائے، انہیں چند پھولوں کا تحفہ پیش کیا جائے، ان کے ساتھ ایک کیک کاٹا جائے اور یوں ان رشتوں کے ساتھ تجدید عہد وفا کیا جائے جو خالق کائنات نے تو اٹوٹ انگ بنائے تھے مگر اب شاید مادہ پرستی اور خود غرضی ان قیمتی خونی رشتوں کا خون کر چکی ہے اور یوں خاندانی نظام کا وجود ہی قائم نہیں رہا۔
دوسری طرف ہماری اسلامی تعلیمات اور مشرقی روایات پر مشتمل مشترکہ خاندانی نظام میں تین نسلیں اکھٹے زندگی گزارتی ہیں۔ بوڑھے والدین کو پوتے، پوتیاں، نواسے اور نواسیاں مل جاتی ہیں تو بچوں کو دادا، دادی، نانا اور نانی کے ساتھ لاڈ پیار کا موقع مل جاتا ہے۔ اس طرح ایک طرف بزرگوں کو بڑھاپے کی تکالیف کا سامنا کرنا آسان ہو جاتا ہے تو دوسری طرف چھوٹے بچوں کو بڑوں کے ادب و احترام سمیت کئی اخلاقی اقدار کی پاسداری سکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔
اس مشترکہ خاندانی نظام کا مرکز و محور ماں ہے جو پورے خاندان کو تسبیح کے دانوں کی طرح پرو کر رکھتی ہے۔ مگر اس کے چلے جانے سے اکثر خاندانوں کا شیرازہ بکھرنے میں دیر نہیں لگتی اور نفسا نفسی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مائیں تو کائنات کی سب سے بیش قیمت میراث ہیں، یہ چلی بھی جائیں تو کہیں نہیں جاتیں اور ہمیں اپنے ساتھ ساتھ رکھتیں ہیں کیونکہ وہ اپنی اولاد کو کسی اور کے سپرد نہیں کر سکتیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے لئے فکر مند رہتیں ہیں، حتی کہ اپنے رب کے حضور پیش حاضر ہو کر بھی ان کا سارا دھیان ہماری طرف ہی تو رہتا ہے۔ جن کی مائیں نہیں رہیں وہ آسانی سے اس امر کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ماؤں کی یاد کسی عالمی دن کی محتاج نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سال کیطرح اب کی بار بھی ماؤں کا عالمی دن ایک مرتبہ پھر آیا اور آ کر گزر گیا۔ مگر ماں جی کی یاد ہے کہ ہمیشہ کے لئے ٹھہر گئی ہے اور میرے قلب و روح میں امر ہو چکی۔ ان کی یادوں کے چراغ ہمہ وقت میری زندگی کی راہوں کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کی لازوال محبت خزاں رُت میں بھی مجھے ہمہ وقت بہاروں کے حصار میں جکڑے رکھتی ہے۔
گزشتہ ہفتے ماؤں کے عالمی دن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شور وغل دیکھا تو دل مضطرب سے یہ صدا آئی کہ بھلا ماں جی کو یاد کئے بغیر کوئی صبح ممکن ہو سکتی ہے یا کسی شام کا تصور کیا جاسکتا ہے، ہرگز نہیں۔ ماں کی یاد کسی عالمی دن کی محتاج تھی، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی۔ ماں جی کی یادیں تو زندگی کا سب سے مضبوط سہارا ہیں اور شاید جینے کا سبب بھی۔ اللہ کریم سب ماؤں کو سلامت رکھے اور جنہیں اپنے پاس بلا لیا ہے انہیں رب العالمین اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔