Tuesday, 15 July 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Kal Ho Na Ho

    Kal Ho Na Ho

    اگرچہ انسانی زندگی بے شمار تضادات سے عبارت ہے مگر ان میں سے چند ایک بنیادی اہمیت کے حامل تلخ حقائق کو اجاگر کرتے ہیں۔ زندگی اور موت کی آنکھ مچولی شاید سب سے بڑا اور پریشان کن تضاذ بھی ہے اور سب سے بڑی تلخ حقیقت بھی۔ ہر شخص دنیاوی زندگی کی بے ثباتی اور غیر یقینی کیفیت سے بخوبی واقف ہے کیونکہ آئے روز ہمارے سامنے اندوہ ناک سانحات اور دلخراش حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے اور ہم اپنے ہاتھوں سے جان سے پیاروں کو سپرد خاک کر آتے ہیں۔

    یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم نے یہاں صدیاں نہیں جینی ہم سب دنیاوی زندگی کے دام الفت میں پھنس کر اس کی دلربا رعنائیوں میں کھو جاتے ہیں اور اس عالم آب و گل میں ہمیشہ رہنے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔ ہم سب اپنی آنکھوں میں ایک ایسا دلنشیں خواب نگر آباد کر لیتے ہیں جس میں ہمہ وقت خوشیوں کے بسیرے ہوں اور چہار سو رنگ و خوشبو کے ڈیرے ہوں، ایک ایسا جہاں جس میں کوئی غم کی گھڑی آئے اور نہ کسی درد و الم سے آشنائی ہو۔

    تقریباً سب انسان نہ صرف اپنے لئے سامان عیش و عشرت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کا معاشی استحکام اور دوام یقینی بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمیں موت سے فرار مل جائے یا حوادثِ زمانہ سے بچ جانے کی کوششوں میں کامیابی حاصل ہو جائے۔ ہمارے سارے منصوبے، ارادے، ارمان، خواہشات، حسرتیں اور خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور چند لمحات میں سب کچھ قصہ ماضی بن جاتا ہے۔

    جان سے پیاروں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے تو خوشیوں کا موسم روٹھ جانے میں دیر نہیں لگاتا۔ جن کے دم سے زندگی کی ساری رعنائیاں، راحتیں اور چاہتیں ہمارے آنگن کو گل و لالہ بناتیں ہیں وہ راہ عدم کے مسافر ٹھہر جائیں تو بہار رت کے گلاب لمحوں میں بھی خزاؤں کی ویرانیاں دکھائی دیتی ہیں۔

    گزشتہ ہفتے بھارت کے شہر احمد آباد سے اڑان بھرنے والی ائیر انڈیا کی پرواز کے خوفناک حادثے میں جاں بحق ہونے والے 241 بد نصیب افراد میں سے ہر ایک کی منفرد داستان ہے، اپنی نوعیت کی الگ کہانی ہے۔ مگر اس المناک کہانی کے تمام کردار جو زندگی کا استعارہ تھے چند لمحات میں موت کی تصویر بن گئے۔ ان میں صرف دو کہانیاں پیش خدمت ہیں۔ پہلی کہانی ہی دل چیر کر رکھ دیتی ہے۔

    دو معصوم سی چھوٹی بچیوں کا باپ ارجن پٹولیا، جو لندن میں مقیم تھا، حال ہی میں اپنی زندگی کی سب سے کڑی آزمائش سے گزرا۔ اس کی شریکِ حیات، بھارتی، کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئی۔ اس کی آخری خواہش یہ تھی کہ اس کی راکھ بھارت میں نرمدا اور گنگا کی لہروں کے سپرد کر دی جائے۔ ارجن نے اپنی شریک حیات کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے طویل سفر اختیار کیا۔ وہ اپنی مرحومہ زوجہ کی راکھ لے کر گجرات پہنچا جہاں اس نے آخری رسومات انجام دیں۔ مگر اسے کیا معلوم کہ تقدیر کی حتمی منصوبہ بندی میں اس کے لئے کیا لکھا جا چکا ہے اور بہت جلد وہ خود موت کے منہ میں جانے والا ہے۔

    طے شدہ پروگرام کے تحت وہ واپس اپنی دو کم سن بیٹیوں کے پاس لندن لوٹنے کے لیے ایئر انڈیا کی پرواز AI-171 پر سوار ہوا، تو یہ اس کا آخری سفر بن گیا۔ اب لندن میں اس کی دو چھوٹی بیٹیاں، صرف 4 اور 8 سال کی عمر میں، ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ ان کی معصوم آنکھیں اب بھی دروازے کی جانب دیکھتی ہیں کہ جیسے ان کے پاپا ابھی آ جائیں گے مگر جانے والے بھلا لوٹ کر کب واپس آتے ہیں۔ ایک وفا شعار شوہر نے بیوی کی آخری خواہش تو خوب نبھائی لیکن اپنی بیٹیوں کو ہمیشہ کے لیے تنہا چھوڑ گیا۔

    دوسری دل لرزا دینے والی داستان غم پرتیک جوشی کی ہے جو گزشتہ چھ سال سے لندن میں سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ اس کا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے لئے برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایک شاندار مستقبل اور خوبصورت و محفوظ زندگی یقینی بنائے۔ اپنے اس خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے اس نے چھ سالوں تک خوب محنت کی، ویزوں کا عمل مکمل کیا اور بالآخر انہیں اپنے ساتھ لانے واپس انڈیا پہنچا۔ دو دن پہلے ان کی بیوی، ڈاکٹر کو می ویاس، نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دیا، پیکنگ کی اور اپنے پیاروں سے الوداعی ملاقاتیں کیں۔

    آج صبح انہوں نے اپنے تینوں بچوں کے ساتھ ائیر انڈیا کی فلائٹ 171 پکڑی۔ فلائٹ لندن کے لئے تیار تھی۔ روانگی سے قبل سب نے خوشی سے ایک سیلفی لی اور اپنوں کو بھیج دی۔ لیکن یہ سفر شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا، جہاز کریش کر گیا اور یہ پانچوں افراد باقی مسافروں کے ساتھ لقمہ اجل ٹھہرے۔ یوں چند لمحات میں ان کی نئی خوبصورت زندگی سے متعلق سارے خواب، تمام ارمان اور ارادے دھوئیں اور راکھ میں بدل گئے۔

    اس المناک حادثے میں ہم سب کے لئے ایک سبق آموز کہانی ہے۔ ہم سب ایک خوبصورت کل کے لئے جانے کیا کیا سوچتے ہیں، جانے کتنے ٹھوس اور طویل المدتی منصوبے بناتے ہیں اور ان میں خوشیوں کے رنگ بھرنے کیلئے اپنی آنکھوں میں خواب بنتے رہتے ہیں۔ ان ساری ناتمام خواہشات کی تکمیل کے لئے ہم اپنا آج قربان کر دیتے ہیں، اپنے رشتوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی قربانی دیتے ہوئے کسی بڑی خوشی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

    دلوں میں نفرت، کدورت اور کینہ و بغض پال کر ہمہ وقت لوگوں سے انتقام لینے کی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ مگر ائیر انڈیا کی پرواز کے اس خوفناک انجام سے سبق حاصل کرتے ہوئے کسی خوبصورت کل کی بجائے ہمیں اپنا آج جینا چاہیے، لمحہ موجود کو خوبصورت بنائیں اور اپنے اردگرد رشتوں کی قدر کریں کیونکہ سب کچھ ایک لمحے میں بدل سکتا ہے اور کسے معلوم کہ کل ہو نہ ہو۔