Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Raste Juda

Raste Juda

آہستہ آہستہ بلی تھیلے سے باہر آ رہی ہے، وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست، رازدان اور معاون خصوصی اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری، جہانگیر ترین کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ انہوں نے برملا طور پر کہا ہے کہ چینی گندم بحران کی ایف آئی اے کی رپورٹ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ جو لوگ وزیراعظم عمران خان کے ویژن پر نہیں چلتے ان کے قریب نہیں رہ سکتے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کا فرمانا ہے کہ جہانگیرترین سیاسی طور پر محض اس لئے اہم تھے کہ وہ وزیراعظم کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ بخاری صاحب کی بات بنیادی طور پر درست ہے کیونکہ ترین صاحب قریب ترین ہونے کے باوجود وزیراعظم کے نہ تو ذاتی دوست ہیں اور نہ ہی وہ انر سرکل، میں کبھی تھے جس میں زلفی بخاری صف اول میں ہیں۔ زلفی بخاری، خان صاحب کے برطانوی نژاد دوست ہیں اور ان کا نام دوستوں کی فہرست میں حالیہ برسوں میں ہی سامنے آیا ہے۔ ان کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جون 2018ء میں جب ابھی عام انتخابات ہوئے تھے نہ عمران خان وزیراعظم بنے تھے تو وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ علیم خان جن کا شمار بھی نسبتاً نئے ساتھیوں میں کیا جا سکتا ہے (لیکن اب ڈسکارڈ ہو چکے ہیں) کے ساتھ ایک نجی طیارے میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب روانہ ہوئے۔ اس موقع پر زلفی بخاری بھی ان کے ہمراہ تھے جنہیں ای سی ایل میں نام ہونے کی وجہ سے ائیر پورٹ پر روک لیا گیا لیکن خان صاحب نے اپنی روانگی میں ایک گھنٹہ تاخیر کر کے ان کا نام ای سی ایل سے نکلوایا اور انہیں ساتھ لے گئے جس کا نوٹس اس وقت کے نگران وزیراعظم جسٹس(ر) ناصر الملک نے بھی لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے نگران وزیر داخلہ نے زلفی بخاری کو سعودی عرب جانے کی اجازت دی تھی۔

برسر اقتدار آنے کے بعد خان صاحب کے پرانے دوست جو بخاری صاحب سے بہت پہلے ان کے یار غار تھے آؤٹ ہو گئے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ان کے سیاسی ساتھی نہیں بلکہ ذاتی دوست تھے۔ ان میں قابل ذکر عمر فاروق عرف گولڈی، کریسنٹ گروپ والے طارق شفیع، نواسہ اقبالؒ میاں یوسف صلاح الدین، مبشر احمد عرف موبی اور عاشق قریشی مرحوم قابل ذکر ہیں۔ پرانے دوستوں میں نعیم الحق چند ماہ قبل کینسر کے باعث انتقال کر گئے تھے ان کی خان صاحب تک رسائی تھی اور وہ بنی گالہ آ جا سکتے تھے۔ وہ میٹنگز میں بھی شریک ہوتے تھے اور معاون خصوصی برائے سیاسی امور تھے۔ جہانگیر ترین کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے 30 اکتوبر 2011ء کو عمران خان کے لاہور میں مینار پاکستان گراؤنڈ میں تاریخی جلسے کے موقع پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ جہانگیر ترین اپنی ذہانت اور شاہ خرچی کی بنا پر خان صاحب کے قریب تر ہوتے چلے گئے اور 2018ء کے انتخابات سے قبل اور بعدازاں حکومت بنانے میں ان کا کردار مزید بڑھ گیا۔ جہانگیرترین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اس بنا پر بدترین مخالف تھے کہ وہ حکمران جماعت کو اس کے تبدیلی کے ایجنڈے کی طرف گامزن کرنے کیلئے بیوروکریسی کے پر کاٹنا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں اگرچہ اس ضمن میں زبانی طور پر تو وزیراعظم نے ترین صاحب کی حوصلہ افزائی کی لیکن عملی طور پر انہوں نے پرنسپل سیکرٹری کا ساتھ دیا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کا قریباً ہر منتخب حکمران بیوروکریسی پر ہی انحصار کرتا ہے اور اس حوالے سے پرنسپل سیکرٹری کا گورننس میں کلیدی رول ہوتا ہے۔ قبل ازیں خان صاحب کے پیش رو میاں نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد عملی طور پر سرکار چلا رہے تھے بالخصوص ان دنوں میں جب میاں صاحب لندن میں سرجری کرا رہے تھے۔ فواد حسن فواد بھی عملی طور پر پاکستان کے غیر منتخب حکمران تھے اور لندن سے ملٹری سیکرٹری کے ذریعے انہیں ہدایات دی جاتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب میاں صاحب کی صاحبزادی مریم نواز پر پرزے نکال چکی تھیں۔ ان دنوں میری فواد حسن فواد سے ملاقات ہوئی تو میں نے فطری طور پر سوال کیا کہ آپ کو محترمہ مریم کی طرف سے حکمنامے ملتے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرا ان سے ایسا کوئی رابطہ نہیں۔

واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹوجو ایک بڑے زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان تھے اور ایک انقلاب، کے ذریعے وزیراعظم بنے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے پرنسپل سیکرٹری خاصے موثر تھے اور بھٹو صاحب ان کے مشوروں پر کان دھرتے تھے تاہم یہ کہنا درست نہ ہو گا اس وقت پرنسپل سیکرٹری حکومت چلا رہے تھے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین سیاسی رسہ کشی کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ ترین صاحب وزیراعظم کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کے زیادہ قریب تھے۔ یہ بات ان کے حریفوں ہضم نہیں ہوئی کیونکہ اگر چینی گندم کا نام نہاد سکینڈل ہے تو اس میں موجودہ حکومت کی اعلیٰ قیادت بھی اسی طرح ملوث ہے جیسے کہ فریقین اول۔ مثال کے طور پر چینی برآمد کرنے کا فیصلہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کی صدارت میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا تھا اور یہ بات ناقابل فہم ہے کہ منظوری وزیراعظم کی مرضی کے بغیر دی گئی۔ دوسری طرف پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اسلم فاروق نے چینی برآمد کے حوالے سے وضاحت کی کہ ملکی قوانین کے تحت کسی بھی شعبے کو سبسڈی دینا غلط ہے نہ کسی شعبے کا سبسڈی لینا معیوب۔ وفاقیحکومت نے 2018ء میں شوگر کی ایکسپورٹ پر سبسڈی دینے کا فیصلہ اس وقت کیا جب اقتصادی رابطہ کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ شوگر ملز کے سٹاک میں چینی وافر مقدار میں موجود ہے اور اگر یہ برآمد نہ کی گئی یا ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے نہ خریدی تو گنے کی نئی کرشنگ شروع نہیں ہو پائے گی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا اور زمینی حقائق کے مطابق سبسڈی دینے کی منظوری دی، پھر ایک لاکھ ٹن مزید چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی جس سے ملک کو ڈالروں کی صورت میں زرمبادلہ حاصل ہوا۔ ایک لاکھ ٹن برآمد کی اجازت دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان نے یہ چینی خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ صرف تین ارب روپے کی سبسڈی دیکر حکومت نے پچاس ارب روپے کا زرمبادلہ کمایا جو ریکارڈ کی بات ہے۔

جہاں تک چینی کی ایکسپورٹ پر پنجاب حکومت کا سبسڈی دینے کا تعلق ہے اس بارے میں معروف صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق تین ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری پنجاب کابینہ نے دی جس نے محض ربڑ سٹیمپ کے طور پر انگوٹھا لگایا حالانکہ اس حوالے سے پنجاب کے محکمہ خزانہ نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو سبسڈی دینے کی مخالفت میں تین سمریاں بھیجیں۔ رپورٹ کے مطابق 29 دسمبر 2018ء کو بہاولپور میں پنجاب کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری سرپرائز ایجنڈا آئٹم جو کابینہ ارکان میں سرکولیٹ بھی نہیں کیا گیا سامنے لے آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ خزانہ کی سمریاں وزیراعلیٰ تک پہنچی بھی نہیں اور محکمہ خوراک نے براہ راست ہی اس کی منظوری دیدی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے طور پر ہی ایسا کیا یا اپنے باس سے پوچھ کرکیا؟ ۔

رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی کابینہ میں ردوبدل کیا گیا ہے اور چینی کی ایکسپورٹ کے حوالے سے رزاق داؤدکو قربانی کا بکرا بنایا گیا، ان کو مشیر صنعت وپیداوار اور شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا ہے تاہم انہیں مشیر تجارت اور سرمایہ کاری کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے۔ لیکن اس سے بھی سنگین مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ خسرو بختیار سے وزارت تحفظ خوراک اور تحقیق کا قلمدان واپس لے کر انہیں اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا گیا۔ گویا کہ عملی طور پر انہیں سزا دینے کے بجائے پروموٹ کر دیا گیا۔ اس حوالے سے مبینہ طور یہ عذر تلاش کیا گیا کہ خسرو بختیار تو شوگر ملوں میں شیئر ہولڈر ہی نہیں ہیں حالانکہ سب کو علم ہے کہ کاغذی طور پر تو نہیں لیکن عملی طور پر وہ رحیم یار خان کی بڑی کاروباری شخصیت اور مریم نواز کے سمدھی چودھری منیر کے پارٹنر ہیں۔ 25 اپریل کو کمیشن کی رپورٹ آنی ہے دیکھنے کی بات ہے کہ اس میں کیا نیا انکشاف کیا جاتا ہے۔ شیخ رشید کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تعلقات کا معمولی اتار چڑھاؤ ہے۔ یہ بات پکی ہے کہ عمران خان اور جہانگیرترین کے راستے جدا ہو چکے ہیں۔