Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Asad Durrani Civilian To Nahi

Asad Durrani Civilian To Nahi

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر ) اسددرانی کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’را، کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُلت کے اشتراک سے کتاب The Spy Chronicles قلمبند کرنا واقعی حیران کن ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تاریخی طور پر کشیدہ تعلقات کے باعث یہ ایجنسیاں تو اصولی طور پر اور دائرہ کارکے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ بیانیہ رہا ہے کہ ’را، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی رہتی ہے۔ قریبا ً دو برس قبل آئی ایس آئی نے بلوچستان سے ’را، کے ایک حاضر سروس افسر کلبھوشن جادیو کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جسے اس وقت انٹیلی جنس کی دنیا میں سب سے بڑا ’کو ُ ُ "قرار دیا گیا۔ اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ ’را، بلوچستان میں شورش برپا کرنے کے درپے ہے۔ 80 اور 90 کی دہائی میں جب مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی کارروائیاں عروج پر تھیں تو بھارتی رہنما یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ سب کچھ آئی ایس آئی کی وساطت سے بھیجے گئے ’گھس بیٹھئے، کروا رہے ہیں۔ اسی دور میں کراچی میں ایم کیوایم کے ہاتھوں شدید گڑ بڑ شروع ہو گئی تھی، اس وقت کہا جاتا تھا کہ بھارت نےK، فار ’K، کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ اگر پاکستان’K، کشمیر میں گڑ بڑ کرے گا تو ہم’K، کراچی میں جواب دیں گے بھارت کی قومی سلامتی کے سینئر مشیر اجیت کمار دوول کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے ہی دیں گے۔ یقینا اسددرانی اورامر جیت سنگھ دلت دونوں ہی اپنے اپنے قومی مفاد اور فوجی قیادتوں کی ہدایت پر ایک دوسرے کے خلاف سرگرم رہے ہونگے۔ اسی بنا پر ان کے مشترکہ طور پر انٹیلی جنس سرگرمیوں کے حوالے سے کتاب لکھنا محل نظر قرار دیا جا رہا ہے۔ اسددرانی نے اس کتاب میں عجیب وغریب قسم کے انکشافات کیے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مئی2011 میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور امریکی نیوی سیلز کا حملہ پاکستان کی ملی بھگت سے ہوا اور اس حوالے سے آئی ایس آئی کے ایک کرنل نے رقم وصول کر لی تھی۔ درانی کا یہ دعویٰ ہمارے سرکاری نکتہ نگاہ کے یکسر برعکس ہے ویسے بھی درانی صاحب2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ ہی نہیں تھے تو انھیں یہ کیسے الہام ہوگیا۔ اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ کشمیر میں ہونے والی تحریک آزادی آئی ایس آئی کے اندازوں سے کچھ آگے نکل گئی تھی۔ گویا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ بھارتی الزامات کے مطابق پاکستان ہی کروا رہا تھا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اس معاملے میں بجا طور پر برہم ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے اس مسئلے پر بھی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ انھوں نے پرانا مطالبہ دہرایا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے تمام سانحا ت کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں میاں نوازشریف کے اس بیان پر کہ ممبئی حملے نان سٹیٹ ایکٹرز کا شاخسانہ تھا جو پاکستان سے وہاں گئے تھے پرکافی ہاہاکار مچی تھی۔ فوج کے سربراہ اور ترجمان نے میاں صاحب کے بیان کی دوٹوک مذمت کی۔ فوج کے مطالبے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا گیا۔ یقینا میاں نوازشریف کو اپنے قانونی معاملات کی تلافی کرنے کے لیے یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ لیکن جنرل اسددرانی کی کتاب میں کیے گئے انکشافات نے واقعی ہمارے دوہرے معیار کو طشت ازبام کر دیا ہے۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضاربانی نے بجا طور پر کہا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان جو اقتدار میں بھی رہا ہوتا بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر ایسی کتاب لکھتا تو فوری طور پر اسے غدار قرار دیا جاتا اور پورے ملک میں احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جانا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ جنرل درانی کو 28 مئی کو وضاحت کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موصوف نے کتاب لکھنے سے پہلے حکومت یا جی ایچ کیو سے کوئی اجازت لی؟ ۔ نیز یہ کہ کیا اس کے مسودے کی کلیئرنس کروائی گئی تھی؟ ۔ لگتا ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ آج کل میاں نوازشریف سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے حوالے سے خوب برس رہے ہیں کہ ان پر سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائے اورا ن کا دعوی ٰہے کہ ان کے اسی ارادے کہ آرٹیکل 6کے تحت پرویز مشرف کو کٹہرے میں لائیں گے، اسی بنا پر عمران خان کا دھرنا کرایا گیا۔ انھیں دھمکیاں دی گئیں اور سبکدوش ہونے یا چھٹی پر جانے کا مشورہ دیا گیا۔ یہ تو محض عذر لنگ ہے کہ پرویزمشرف کا نام عدالتوں نے ای سی ایل سے ہٹایا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس وقت میاں صاحب نے دباؤ میں آ کر اپنی جان چھڑا لی تھی لیکن آج کے تناظر میں فوجی قیادت کے لیے بہت بڑا امتحان ہے کہ جب جنرل (ر) اسددرانی جی ایچ کیو میں پیش ہوتے ہیں تو ان سے کیا سلوک روارکھا جاتا ہے کیونکہ یہ محض ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسروں کے ضابطہ اخلاق کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قومی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بعض عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کتاب میں شامل بہت سے موضوعات حقائق کے قطعاً برعکس ہیں اور اگر فوج کا کوئی سابق سربراہ بھی ملکی مفاد کے خلاف بات کرے گا تواس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔ ابھی تک سویلین قیادت اس معاملے میں خاموش ہے۔ اس طرح یقینا بال اب فوجی قیادت کے کورٹ میں ہے کہ وہ جنرل (ر) اسددرانی کا معاملہ کیسے دیکھتی ہے۔ جنرل (ر) اسددرانی سے میرے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ یہ انٹلیکچوئل جنرل ہیں جو پڑھتے لکھتے رہتے ہیں۔ مختلف سیمینارز میں شرکت میں ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہتا ہے۔ وہ 1996میں جرمنی میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں۔ جب یہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو یہ لبرل صحافیوں کے فیورٹ تھے۔ لیکن دوسری طرف ان کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے اچھی علیک سلیک بھی تھی لیکن انھوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ہی آئی جے آئی کی تشکیل کے لیے مہران گیٹ میں سیاستدانوں میں پیسے بانٹنے میں خصوصی کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت کی سیاسی انجینئرنگ کا کلیدی فائدہ میاں نوازشریف کو پہنچا تھا۔ ’را، کے سابق سربراہ اور کتاب کے لکھاری دلت نے ’ادتیا سنہا، Aditya Sinhaکے سوال کہ ’را، کی سب سے بڑی ناکامی کیا ہے۔ پر انھوں نے جواب میں کہا کہ ’را، کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ آج تک آئی ایس آئی کے کسی ایک افسر کو ساتھ نہیں ملا سکی یقینا آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہوتا ہے اور دشمن کی طرف سے ایسا اعتراف قابل فخر ہے لیکن جنرل اسددرانی نے کتاب میں جو انکشاف کیے ہیں وہ ہمارے قومی مفاد سے کہاں تک لگاؤ کھاتے ہیں۔ جی ایچ کیو کو اس بات پر غور کرنا چاہیے۔