Monday, 08 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Arif Anis Malik
  4. Zindagi Zindabad

Zindagi Zindabad

تصور کریں ایک نیم تاریک کمرے کا، جس میں دوائیں، درد کش ٹیکوں اور بیماری کی بو رچی ہوئی ہے۔ بستر پر ایک عورت لیٹی ہے جس کا ایک پاؤں گینگرین کی وجہ سے کاٹا جا چکا ہے، جس کی ریڑھ کی ہڈی پہلے ہی بیسیوں جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اور جسے معلوم ہے کہ موت دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی دستک دے رہی ہے۔ عام حالات میں، کوئی بھی انسان اس لمحے صرف ایک ہی چیز مانگتا ہے: "نجات"۔ وہ شکوہ کرتا ہے، روتا ہے، یا خدا سے پوچھتا ہے "میں ہی کیوں؟"

لیکن وہ میکسیکو اور جنوبی امریکہ کی لیجنڈری آرٹسٹ فریڈا کاہلو تھی۔

اپنی موت سے صرف آٹھ دن پہلے، جب اس کا جسم اذیت کی انتہا پر تھا، اس نے برش اٹھایا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، مگر اس کا ارادہ نہیں۔ اس نے کینوس پر کوئی اداس منظر، کوئی روتا ہوا چہرہ یا قبرستان نہیں بنایا۔ اس نے شوخ سرخ رنگ کے تربوز (Watermelons) بنائے۔ وہ تربوز جو زندگی کی مٹھاس، تازگی اور زرخیزی کی علامت ہیں اور پھر، اس پینٹنگ کے سب سے نچلے حصے میں، اس نے گہرے سرخ رنگ سے وہ تین الفاظ لکھے جو آج تاریخ کے سب سے بڑے "مزاحمتی نعرے" بن چکے ہیں:

"Viva La Vida" (یعنی: زندگی زندہ باد!)

یہ محض ایک پینٹنگ نہیں تھی، یہ موت کے منہ پر مارا گیا ایک طمانچہ تھا۔

نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی دماغ قدرتی طور پر "منفی جھکاؤ" (Negative Bias) رکھتا ہے۔ جب ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو ہمارا دماغ صرف اندھیرے کو دیکھتا ہے۔ لیکن فریڈا نے اس پینٹنگ کے ذریعے ہمیں ایک بہت گہرا فلسفہ سکھایا: "درد ناگزیر ہے، مگر دکھی رہنا ایک انتخاب ہے۔ " (Pain is inevitable، suffering is optional)۔

"ویوا لا وِڈا" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی "پرفیکٹ" ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ "سب کچھ غلط ہونے کے باوجود، میں جینے کا جشن مناؤں گی"۔ یہ ایک اعلانِ جنگ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات چاہے آپ کا جسم توڑ دیں، وہ آپ کی روح کی مٹھاس نہیں چھین سکتے۔ فریڈا ان کٹے ہوئے تربوزوں کی طرح تھی، باہر سے سخت، زندگی کے تھپیڑوں سے چھلی ہوئی، لیکن اندر سے اتنی ہی شوخ، اتنی ہی سرخ اور اتنی ہی میٹھی۔

آپ نے کبھی سوچا کہ اس نے آخری وقت میں تربوز ہی کیوں بنائے؟ آرٹ کے ماہرین کہتے ہیں کہ تربوز کی سخت چھال اس کی "قوتِ مدافعت" (Resilience) تھی اور اندر کا سرخ گودا اس کا "جذبہ" (Passion)۔ اس نے موت کے سیاہ پس منظر میں زندگی کا سب سے شوخ رنگ بھر کر کائنات کو یہ پیغام دیا کہ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، اسے ختم کرنے کے لیے روشنی کی ایک کرن، یا زندگی کا ایک ٹکڑا، کافی ہوتا ہے۔

آج ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر زندگی سے روٹھ جاتے ہیں۔ کاروبار میں نقصان ہوگیا، رشتہ ٹوٹ گیا، یا کوئی بیماری آ گئی، ہم فوراً "مظلومیت" (Victimhood) کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں "زندگی بہت ظالم ہے"۔

لیکن ذرا فریڈا کے اس آخری لمحے کو یاد کریں۔ اس کے پاس رونے کی ہزار وجوہات تھیں اور ہنسنے کی شاید ایک بھی نہیں۔ لیکن اس نے اپنی توجہ کا مرکز (Focus) بدلا۔ اس نے ان چیزوں پر توجہ نہیں دی جو وہ کھو رہی تھی (اس کا جسم، اس کی سانسیں)، بلکہ اس نے اس چیز پر توجہ دی جو ابھی اس کے پاس باقی تھی، "رنگ اور احساس"۔

"ویوا لا وِڈا" ہمیں جھنجھوڑ کر پوچھتا ہے: تمہارا بہانہ کیا ہے؟

اگر ایک عورت کٹے ہوئے پاؤں اور ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ زندگی کا نعرہ لگا سکتی ہے، تو تم اپنے سلامت وجود کے ساتھ مایوسی کے اندھیروں میں کیوں ڈوبے ہوئے ہو؟

فریڈا کاہلو مرگئی، لیکن اس کا یہ نعرہ آج بھی کروڑوں انسانوں کے لیے ایک "منتر" ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کا جشن اس لیے نہیں منانا چاہیے کہ وہ آسان ہے، بلکہ اس لیے منانا چاہیے کیونکہ وہ "ہے"۔ جب تک سانس ہے، تب تک چانس ہے۔ اپنی کرچیوں کو سمیٹیں، برش اٹھائیں اور اپنے حالات کے کینوس پر بڑے بڑے حروف میں لکھ دیں: زندگی زندہ باد!

نوٹ: "زندگی، زندہ باد" اب میری اگلی کتاب کا عنوان ہے، جو فروری 2026 میں شائع ہوگی، انشاءاللہ!