Saturday, 12 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Arif Anis Malik
    4. Bartania Ka Ameer Tareen Shakhs Kon Hai?

    Bartania Ka Ameer Tareen Shakhs Kon Hai?

    ہو سکتا ہے کہ آپ کو برطانوی شاہی خاندان کا خیال آئے، یا ڈیوک آف ونڈسر کا، لیکن آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ برطانیہ کا امیر ترین شخص، شکارپور سندھ سے تعلق رکھنے والے ہندوجا خاندان کا سربراہ ہے۔ دولت کا اندازہ 45 ارب ڈالرز ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ رقم سو، سو پاؤنڈز کی قطار میں جوڑی جائے تو آپ دنیا کے مدار سے باہر نکل سکتے ہیں۔

    میرے بائیں ہاتھ پر موجود 84 سالہ گوپی چند ہندوجا خاندان کے سربراہ ہیں، جنہیں اس سال پھر سنڈے ٹائمز نے برطانیہ کا امیر ترین شخص قرات دیا ہے۔ یہ واسکٹ والا سیٹھ دنیا کے امیر ترین لوگوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوجا خاندان کا تعلق شکارپور سندھ سے ہے اور اسی کی یاد میں انہوں نے برطانیہ میں سندھ بینک بھی قائم کیا تھا۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوپی چند سے گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ممبئی، ایران، برطانیہ اور پوری دنیا کے شہری ہونے کے باوجود شکارپور اور سندھ سے اپنے صدیوں تعلق کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ شاید مٹی کا اثر واقعی برحق ہوتا ہے۔

    یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ شروع کیسے ہوا؟ کہانی کا آغاز ہوتا ہے بیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان سے۔ "ہندوجا" نام سنسکرت سے نکلا، "ہندوستان" اور "جا" (یعنی تعلق رکھنے والی چیزیں) کا مرکب۔ سندھ کے شہر شکارپور میں 1901 میں جنم لیتے ہیں اس داستان کے مرکزی کردار، پرمانند دیپ چند ہندوجا، ایک ایسا نوجوان جس کی ابتدائی زندگی عیش و عشرت سے نہیں، بلکہ مالی مشکلات اور جدوجہد سے عبارت تھی۔ مگر اس نوجوان کے حوصلے بلند تھے۔ صرف 13 سال کی عمر میں، شکارپور سے نکل کر 1914 میں، وہ بمبئی کا رخ کرتا ہے، تجارت کے گر سیکھنے اور وہیں ہندوجا گروپ کی بنیاد رکھتا ہے۔ مرچنٹ بینکنگ اور تجارت میں اسے کامیابی ملتی ہے اور 1919 میں وہ اپنے ہیڈکوارٹر کو ایران منتقل کر دیتا ہے، ایک فیصلہ جو انتہائی سودمند ثابت ہوا۔

    اگلی دہائی ایران اور فارس میں مضبوط تجارتی تعلقات بنانے اور بھروسے کی ساکھ قائم کرنے میں گزری۔ پھر خاندان بڑھا، پانچ بچے ہوئے، جن میں گردھر، سری چند (ایس پی)، گوپی چند، پرکاش اور اشوک شامل تھے۔ گردھر کے انتقال کے بعد، 1935 میں پیدا ہونے والے ایس پی ہندوجا نے کاروبار سنبھالا۔ انہیں اپنے والد سے بہتر تعلیم ملی اور وہ ٹیکسٹائل کی دکان سے لے کر پیاز، آلو اور لوہے کی تجارت تک ہر کام میں شامل رہے۔ ان کے بھائی گوپی چند (پیدائش 1940) نے بھی قانون میں ڈاکٹریٹ کے بعد کاروبار میں قدم رکھا۔

    1971 میں پرمانند دیپ چند کے انتقال کے بعد، ایس پی ہندوجا نے قیادت سنبھالی اور ان کا ایک ہی عزم تھا، توسیع! انہیں لگتا تھا کہ ان کے والد نے یورپی مارکیٹ کی وسعتوں کو پوری طرح نہیں کھنگالا تھا۔ 1973 میں "ہندوجا گلوبل سلوشنز" کا قیام اور 1979 میں ہیڈکوارٹر کا ایران سے یورپ (لندن) منتقلی، ایران کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر، ایک انقلابی قدم تھا۔ اب ان کے سامنے ٹیکنالوجی، میڈیا، مواصلات اور کیمیکلز کے وسیع میدان تھے۔ بھائیوں نے مل کر کام تقسیم کیا: ایس پی مجموعی قیادت، پرکاش یورپ، اشوک ہندوستان اور گوپی چند اہم ذیلی اداروں اور سلطنت کی جانشینی کے ذمہ دار بنے۔

    گوپی چند نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ وہ اپنے کاروباری فیصلے صبح کی سیر اور کافی کے دوران کرتے ہیں۔ لندن کے سینٹ جیمز پارک میں روزانہ صبح 7:45 سے 8:45 بجے تک چہل قدمی کرتے ہیں اور 8:45 سے 8:55 بجے تک مفت کافی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کاروباری تجاویز پر بات چیت کے لیے وہ بڑے بڑے بزنس مینوں کو چہل قدمی اور کافی کی دعوت دیتے ہیں۔ یوں ہماری واک بھی ہو جاتی ہے، کام کی بات بھی اور کافی میری طرف سے مفت ہوتی ہے۔

    ہندوجا خاندان تنازعات کی زد میں بھی رہا، پچھلے برس سوئٹزرلینڈ میں مقدمہ ہوا کہ وہ اپنے ملازمین کو کمترین تنخواہ دے رہے ہیں، راجیو گاندھی کے ساتھ بوفورز سکینڈل میں بھی ان کا نام آیا، انسانی سمگلنگ کے الزامات بھی لگے مگر وہ ان تمام سے بری ہوتے گئے۔

    سو آج کے برطانیہ کی بڑی خبر یہ ہے کہ اس کا امیر ترین شخص کنگ چارلس نہیں بلکہ شکارپور سندھ سے تعلق رکھنے والے خاندان سے ہے، جس نے تقریباً 120 برس میں عسرت سے دنیا کا امیر ترین خاندان بننے کا سفر طے کیا اور یہ بات سندھ میں بھی شاید کسی کو معلوم نہیں ہے۔