Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Arif Anis Malik/
  3. Gharmus Is On

Gharmus Is On

غلام مشعلیں لے کر بھاگے پھر رہے ہیں۔ محل پر پھر کوئی آفت ٹوٹنے کو ہے، شاید محلات کے مکین بدلنے والے ہیں۔ تیر کمانوں میں کس لیے گئے ہیں اور گھوڑے ایڑ لگائے جانے کے منتظر ہیں۔ گزشتہ ستر سال میں باقی تو بہت کچھ لمحاتی رہا ہے مگر مملکت خداداد پاکستان میں گھڑمس مستقل برقرار رہا ہے سو بزکشی کا گھڑمس از آن۔

تبدیلی آتے آتے اب تک جانے کو ہے۔ کل کے دوست دشمن اور دشمن حریف بن چکے ہیں، کچھ خنجر زہر میں بجھا کر جیب میں ڈال لیے گئے ہیں کہ وقت آنے پر چلیں گے، تب تک تازہ خبر آئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہے۔

ماضی کے خونی حریف پیپلز پارٹی، نون لیگ اور قاف لیگ خان کی "محبت" میں یکجا ہو چکے ہیں۔ اب تقریباً "قومی حکومت" وجود میں آنے والی ہے، اگر مفاد پرستی اور ابن الوقتی کے پرستاروں کو ایک قوم تصور کرلیا جائے۔ بس قومی دیگ پر سے ایک چوکی اٹھنے والی ہے، دوسری چوکی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ بنو امیہ کے جانے اور بنو عباس کے آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

یہ وقت بھی خوب ہے۔ سب کچھ مارچ سے لے کر اکتوبر کے درمیان میں ہونا ہے۔ کہ نومبر آیا تو وزیراعظم ہاؤس کا مکین اگلے سپہ سالار کا تقرر کردے گا۔ خیر پروانہ تو کچھ عرصے پہلے بھی جاری ہو سکتا ہے۔ تاریخ اسلام میں سپہ سالاروں کے آنے کا وقت تو معین ہے، جانے کا وقت نہیں۔ اب کی بار نظیر ایسی سیٹ ہوئی ہے کہ جو آئے گا، تین کی بجائے چھ سال کا سوچ کر آئے گا۔ اپنے قومی اشاریے کی نسبت سے چھ سال میں دو "جمہوری حکومتیں " اوپر نیچے ہو جاتی ہیں۔ سو نون، قاف اور پیپلز پارٹی والے جانتے ہیں کہ اگر نومبر تک کا وقت خان کو مل گیا اور پشاور والے بھائی نے بڑی ٹوپی پہن لی تو اگلی باری آنے تک صف اول کی ساری "بیمار شیمار قیادت" اللہ کو پیاری ہو چکی ہوگی۔ سو جینا ہوگا، مرنا ہوگا، جو کرنا ہے ابھی کرنا ہوگا۔

شطرنج کی بازی یہ طے ہوئی ہے کہ اگلے سات سے دس دن میں سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے گی۔ اس کا بڑا مقصد اپنے نگ گن لینا اور تسلی کر لینا ہے۔ چونکہ ترین گروپ اور ہمنوا کی جانب سے فلور کراس ہوگا اور اگر اپنا سپیکر نہ ہوا تو بیس، پچیس لوگ سپیکر کے ہاتھوں فارغ ہو جائیں گے، سو پہلے سپیکر کی باری ہے۔ اسد قیصر کے جانے کا مطلب یہ ہوا کہ خان صبح گیا، یا شام گیا۔ پلان کے حساب سے مارچ کے اختتام تک گیم ختم ہو چکی ہوگی۔ مگر زندگی پلان کے حساب سے کب چلتی ہے؟

گزشتہ ستر برس سے تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں پہلے ایک حکومت کھڑی کی جاتی ہے اور پھر اس کے اندر سے ایک سپلنٹر گروپ کھڑا کیا جاتا ہے جو پہلے چار پانچ سال گزارنے کے بعد اگلے چار پانچ سال گزروا دیتا ہے۔ یہ سعادت اس مرتبہ ترین گروپ کے حصے میں آئی ہے۔ اگر سب کچھ اسی ترتیب سے ہوا تو اگلے کچھ مہینوں میں میاں صاحب اور ترین صاحب، دونوں کی تاعمر نااہلی کے فیصلے سے رجوع کر لیا جائے گا یا "حلالہ" کر لیا جائے گا۔ شہباز شریف اگلی مرتبہ پورے اختیار اور مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں سو اب خواجہ آصف، ایاز صادق یا کسی ایسے ہی "بی ٹیم اور غیر شاہی خاندان" والے کا سال بھر کے لیے کرسی کا جھوٹا لگوا دیا جائے گا۔

زرداری صاحب سندھ کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھنے کی گارنٹی لے رہے ہیں، جب کہ چوہدری صاحبان، اب اونٹ آیا پہاڑ کے نیچے کے مصداق، وزیر اعظم مونس الہی کو پروان چڑھائے کھڑے ہیں، ورنہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی واپسی تو یقینی ہے۔ مولانا فضل الرحمن وزیر اعظم بننے کے لئے سب کے فیورٹ تھے مگر وہ اسمبلی سے باہر ہیں۔ میاں صاحبان، چوہدری صاحبان سے رجوع کرنے کی "گھیسی" کر چکے ہیں۔ چشم فلک نے "پنجاب کے ڈاکوؤں" کو پہلے سپیکر اور پھر وزیر اعلیٰ بنتے بھی دیکھنا ہے۔ چوہدری واقعی اپنی گانٹھ کے پکے نکلے۔ وفاق کے بعد پنجاب میں تبدیلی اڑتالیس گھنٹوں کی مار ہوگی اور یوں گھوڑے کی پشت پر سواروں کی تبدیلی کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔

خان اس وقت اسی مائنڈ سیٹ میں ہے جب وہ 1992 میں کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا جب پاکستانی ٹیم کی ہے درپے شکستوں کے بعد ٹیم کی واپسی کی ٹکٹیں بک ہو چکی تھیں۔ نفسیاتی اعتبار سے خان اس وقت گیم کے لیے بھرپور حالت میں ہے سو وہ اپنی کرنی کر گزرے گا، گو کہ اس وقت سولہ آنے میں سے بارہ آنے حکومت ختم ہو چکی ہے، مگر وہ آسانی سے ایگزٹ نہیں لے گا۔ وہ بہت سے طاقتوروں کی بے چینی کے باوجود پورے اعتماد سے بل گیٹس کو بھی وصول کر رہا ہے اور پیوٹن سے بھی ہاتھ ملا رہا ہے۔ آخری اووروں میں چھکے، چوکوں کا امکان ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ اوور آخری ہی چل رہے ہیں اور اپنی وکٹیں گرنا طے ہے۔ بدقسمتی سے دو تہائی اوور ضائع کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ کیا خان 1992 کی تاریخ دوہرا پائے گا؟ بیس فیصد امکان اس بات کو بھی دے دیتے ہیں۔

2013 سے 2022 تک کے اس سارے کھیل میں ایلکٹ ایبل جیت گئے، میوزیکل چیئر والے جیت گئے، سائے جیت گئے، نوکریوں والے جیت گئے۔ خواب ہار گئے، جوان آنکھیں پتھرا گئیں، تبدیلی بھرشٹ ہوگئی، "ہم دیکھیں گے "والے دیکھتے رہ گئے۔ امیدوں کے نخلستان میں ببول اگ آئے۔ ہم نے یہ سیکھا کہ سیاست اور لیڈر شپ دو الگ چیزیں ہیں، یہ سیکھا کہ دنیا بھر میں اس امر سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعظم ہاؤس میں کون بیٹھا ہے۔ یہ طے ہے کہ کوئی بھی بیٹھے گا یہ سرکس اسی طرح سے چلتا رہے گا۔ ملک ادارے اور لوگ تعمیر کرنے سے چلتے ہیں۔ تب تک ہر دس برس بعد گھڑمس از آن۔ گھڑمس از ڈیڈ، لانگ لو دا گھڑمس!