Friday, 06 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Influenza Se Coronavirus Tak

Influenza Se Coronavirus Tak

یہ سو سال پرانی بات ہے:

پوری دنیا میں تباہی پھیلا دینے والی انفلوائنزا کی وبا 1918ء کے موسمِ خزاں میں امریکی کی 48ریاستوں میں نہایت تیزی سے پھیلی۔ امریکی شہروں میں اشتہار لگا دیے گئے کہ کھانسنا یا چھینکنا ایک غیر قانونی عمل ہے اور ایسا کرنے والے افراد کو 500ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ واشنگٹن ڈی سی کے ڈاکٹر نوبل پی بیرنز نے کہا "چھینکنے یا کھانسنے والے افراد پر جرمانہ لگانا چاہیے، انہیں قید کر دینا چاہیے اور اس وقت تک ان کے منہ پر نقاب یا ماسک چڑھا دینا چاہیے جب تک وہ صحت یاب نہیں ہو جاتے"۔

ہزاروں لوگوں کو گلیوں اور گھروں میں ہلاک کر دینے والے غیر مرئی حملہ آور سے جنگ لڑنے والے شہری حکام اور محکمہ صحت کے کارکنوں کی مایوسی کا عالم ایسا عجیب و غریب تھا اور ان کا خیال بھی یہ تھا کہ اس و با سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے سو وہ اگرچہ اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے تھے لیکن ان کی حالت بھی ایسی ہی تھی جیسی آج کرونا وائرس سے جنگ لڑنے والوں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، پولیس اور ریسیکیو1122والوں کی ہے۔ اس زمانے میں ایک پوسٹر جگہ جگہ چسپاں کیا گیا جس کی عبارت کچھ یوں تھی: "یہ بیماری نہایت تیزی سے پھیلتی ہے، اس سے بچائو کی دوا نہیں ہے"۔ اس وقت کے ڈاکٹرز کا یہی کہنا تھا کہ اس کا سب سے بہترین علاج احتیاط اور صرف احتیاط ہے۔

انفلوئنزا کی وبا دو لہروں کی صورت میں پھیلی۔ پہلی لہر 1918ء کی ابتدا میں امڈی اور دوسری لہر 1918ء کے موسمِ گرما میں وائرس کی قسم میں تبدیلی کے بعد پھیلی اور شدید ترین نقصان پہنچایا۔ اس وبا کا باعث بننے والا وائرس سب سے پہلے فروری1918ء میں اسپین کے ایک چھوٹے سے ساحلی قصبے سان سباسٹیان(یہ قصبہ فرانس کی سرحد سے تقریباً بیس میل دور واقع ہے) میں پھیلا تھا، اس اتفاق کی بنا پر اس بیماری کوہسپانوی نزلہ یا ہسپانوی لیڈی کا نام دیا گیا۔ انفلوئنزا کے شدت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ 1919ء کے موسمِ بہار تک اس وائرس نے بیشتر یورپ اور پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

مارچ1918ء یعنی پہلی جنگ کے آخری برس میں امریکی ریاست کنساس کے علاقے فورٹ ریلے میں کیمپ فنسٹن اور انفلوئنزا کی وبا کے پہنچنے تک وہ یورپ اور ایشیا میں بربادی پھیلا چکی تھی۔ ایسی قوم جسے پہلی جنگِ عظیم نے ویسے ہی برباد کر دیا تھا جب یہاں سے انفلوئنزا رخصت ہوئی تو اس نے ان برباد ہوئی اقوام کو معاشرتی اور معاشی بحران کے ذریعے تباہی سے دوچار کر دیا تھا۔ اس پراسرا بیماری کے بارے مختلف نظریات سامنے آئے۔

نیویارک ٹائمز(21جون 1981ء) کے مطابق جرمن فوج شلجم زیادہ استعمال کرتی تھی جس کی وجہ سے اس بیماری نے جنم لیا، دو ہفتے بعد ٹائمز نے یہ رپورٹ دی کہ فرانس کی طرف سے آنے والی ہوائوں نے اس بیماری کو جنم دیا۔ اس وائرس نے جب ایک بار بحیرۂ اوقیانوس پار کر لیا تو پھر انتہائی تیزی سے امریکہ میں پھیلا۔ ستمبر1918ء میں امریکہ میں انفلوئنزا سے 387افراد روزانہ کی بنیاد پہ لقمہ اجل بنے اور اس ایک مہینے میں مجموعی طور 12ہزار افراد اس وائرس سے ہلاک ہوئے اوراسی طرح اکتوبر میں روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 6300ہوگئی اور ایک ماہِ اکتوبر میں ایک لاکھ پچانوے ہزارنوے ہزار لوگ ہلاک ہو گئے۔

ہلاکتوں کی ہولناکی واضح کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس وائرس نے مجموعی طور پر دو کروڑ بیس لاکھ اور ایک اور رپورٹ کے مطابق چار کروڑ لوگوں کو ہلاک کیا۔ اس حوالے سے سابق ہیلتھ کمشنر نیویارک ڈاکٹر گولڈ وائز نے اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ "جو اموات محکمہ صحت والے بتا رہے ہیں یہ جھوٹ ہے بلکہ اموات اس سے کہیں زیادہ ہوئیں جو عوام سے چھپائی گئیں"۔ اس عالمگیر قاتل نے کیسے کیسے چن چن کر لوگوں کو قتل کیا اور کہاں سے آئی اور کیسے پھیلی اس بارے میں درجنوں تحقیقات ہوئیں مگر ابھی تک کوئی واضح تحقیق سامنے نہیں آئی۔

سٹیفن جے سپگنیس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا "انفلوئنزا کی بیماری آج بھی موجود ہے اور موثر ویکسی نیشن پروگراموں کی بدولت یہ وبا محدود رہی ہے۔ ہمارے پاس انفلوئنزا کے بہت سے جراثیموں کا علاج موجود ہے تاہم فطرت باوسیلہ ہے اور ہمیشہ اس بات کا امکان رہے گا کہ کوئی ایسا وائرس نمودار ہو جائے گا جس سے ہم کوئی بچائو نہیں کر سکیں گے اور وہ دوبارہ اسی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا"۔

قارئین کرونا وائرس بھی نزلہ، زکام، کھانسی اور چھینکنے سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بیشتر یورپ اور امریکہ سمیت پورے ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دنیا کے دو سو ممالک اس وائرس کے سامنے سرینڈر کرچکے ہیں کیونکہ اس وائرس کی نہ پہلے کوئی ویکسین تھی اور نہ ہی آج کوئی ویکسین ہے۔

آج سے ایک سو دو سال قبل بھی ہمارے ڈاکٹرز اور محکمہ صحت والے یہ سوچتے رہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا، کیسے آیا اور کہاں گیا، کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور جواب ہوتا بھی کیسے کیونکہ ایک انگریز نے اپنی کتاب میں جاتے جاتے یہ بتا یاتھا کہ "قدرت باوسیلہ(اس نے چالاک کا لفظ استعمال کیا تھا)ہے"لہٰذا قدرت کبھی بھی ناراض ہو کر کسی بھی طرح کا امتحان لا سکتی ہے۔

آج اس وائرس پر مبصرین کے مختلف گروہ بن گئے، دائیں بازو والوں کا خیال ہے کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے اور اس کا علاج صرف دعا اور صدقہ ہے جبکہ بائیں باوزو والوں کا کہنا ہے کہ یہ سب بائیولاجیکل وار ہے اور اس سے جلد ہی چھٹکارا مل جائے گا۔ اور تیسرا گروہ سائنس دانوں اور ریسرچرز کا ہے جن کے پاس نہ آج سے سو سال قبل انفلوئنزا کی کوئی ویکسین بن سکی اور نہ ہی ان سے کرونا وائرس کی کوئی ویکسین بن پا رہی ہے سو میرا آج بھی یہی خیال ہے کہ اس کا علاج وہی ہے جو آج سے ایک سو دو سال قبل انفلوئنزا کے بچائو کے لیے اپنایا گیا تھا اور وہ تھا "کھانسنا منع ہے" یا ان پر جرمانہ عائد کر دیں۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ پاکستان میں اس وائرس کے آغاز میں اعلان کیا گیا کہ گھروں سے نہ نکلیں لیکن لوگ باز نہ آئے۔ لاک ڈائون کر دیا گیا کہ لوگ شاید گھر بیٹھ جائیں لیکن لوگ تب بھی باز نہ آئے اور آپ کرفیوبھی لگا کے دیکھ لیں۔ اس قوم کو کرفیو بھی گھر نہیں بٹھا سکتا کیونکہ یہ ایک کنفیوز قوم ہے جو ہمیشہ وہ کام کرتی ہے جس سے اسے روکا جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ اس قوم کو اگر جنت بھی بھیج دیا جائے تو یہ ایک دفعہ جہنم کا چکر لازمی لگائے گی، صرف یہ دیکھنے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔

اس قوم کوامریکہ کی طرح جرمانے کریں، ماسک دیں یا پھر سینی ٹائزر گھر گھر تقسیم کریں، یہ قوم صرف یہ دیکھنے باہر نکلتی ہے کہ یار کرونا واقعی ہے یا صرف ڈرایا جا رہا ہے۔۔ ایسی قوم پر اگر طاعون، انفلوئنزا یا کرونا جیسے وائرس جیسا عذاب نہ آئے تو کیا آئے۔