Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Zulfiqar Ahmed Cheema/
  3. Pakistan Ka Aik Gumnaam Mohsin

Pakistan Ka Aik Gumnaam Mohsin

تاریخ درست کرنے کے نام پر کئی متعصب اور خصوصی ایجنڈا بردار عناصر ہمارے ملک کی تاریخ سے کھلواڑ کررہے ہیں اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ بڑے حساس اداروں کے افراد بھی اپنے بارے میں تو ضرورت سے زیادہ حساس ہیں مگر وطنِ عزیز اور بانیانِ پاکستان کی تضحیک اور توہین کا معاملہ ہوتو بے حس ہوجاتے ہیں۔

کئی ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے پاکستان کی تعمیر و تزئین میں حصہ ڈالا، اپنے ہاتھوں سے اینٹیں اور گارا ڈھوتے رہے مگر کسی کو ان کے نام تک کی خبر نہیں، اس ملک کے ایسے ہی محسنوں میں جناب محمد اسد یا علامہ اسد بھی شامل ہیں جو آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر خالقِ کائنات نے ان کا دل اور دماغ اپنی ہدایت کی روشنی سے منور کردیا اور پھر انھوں نے ایک بڑے اسکالر کے طور پر عالمی شہرت حاصل کی۔

اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے Road to Mecca، اور Islam at the Crossroads، جیسی معرکتہ لآرا کتابیں تخلیق کیں اور قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ ان کے حالاتِ زندگی پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ایک بے قرار روح ملکوں ملکوں پھرتی رہی۔ بلاشبہ وہ اقبالؒ کے اس نظریے پر عمل پیرا رہے کہ

؎

ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست

اُن کا اصل نام Leopold Weiss تھا، وہ جولائی 1900 میں آسٹریا کے قصبے لمبرگ (جو اِس وقت یوکرین میں ہے) میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا یہودی مذہب کے معروف عالموں میں سے تھے۔ والد ویانا میں وکالت کرتے تھے، ویانا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لیوپلڈ نے اپنے لیے صحافت کا میدان چُن لیا۔ اس سلسلے میں وہ برلن (جرمنی) چلے گئے اور ایک جرمن اخبار سے وابستہ ہوگئے۔ جرمنی سے وہ اپنے چچا کے پاس بیت المقدس چلے گئے اور مسجدِ اقصٰی کے قریب رہائش پذیر ہوئے، جہاں انھیں پہلی بار مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

وہاں سے وہ اپنے اخبار کو فلسطین کے بارے میں شذرات اور ڈائریاں بھیجتے تھے۔ اپنے اخبار کی تحریک پر انھوں نے دنیائے عرب کا تفصیلی دورہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ 1922میں وہ عرب دنیا کے طویل دورے پر نکل کھڑے ہوئے، جس میں مصر، اردن، فلسطین، شام اور عراق میں گھومنے کے بعد 1924میں دوبارہ مصر، اردن، طرابلس، عراق، ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشیا کی دشت پیمائی کے لیے نکلے۔ 1926میں انھیں خالقِ کائنات نے روشنی عطا کی اور وہ جرمنی جاکر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

جرمنی ہی کے مسلم اسکالرز کی تجویز پر انھوں نے اپنا نام محمد اسد رکھا جو لیوپلڈ کا ہی عربی ترجمہ ہے۔ محمد اسد اپنی پہلی بیوی کے ساتھ 1927میں حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ گئے، اُسی دوران اُنکی اہلیہ مختصر علالت کے بعد وفات پاگئیں، وہیں ان کی سعودی عرب کے حکمران ابنِ سعود سے ملاقات ہوئی اور اُن کے ساتھ بڑے گہرے مراسم قائم ہوگئے۔ وہ سعودی عرب میں پانچ سال مقیم رہے جس دوران ان کے شاہی خاندان کے افراد خصوصاً فیصل بن عبدالعزیز (جو بعد میں بادشاہ بنے) کے ساتھ دوستی ہوگئی جو شاہ فیصل کی شہادت تک قائم رہی۔

سعودی عرب میں ان کی مولانا عبدالقادر قصوری (معروف قانون دان جناب محمود قصوری کے والد اور خورشید قصوری کے دادا) سے ملاقات ہوئی جس میں مولانا قصوری نے انھیں ہندوستان آنے کی دعوت دی تاکہ برصغیر کے مسلم اکابرین سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوسکیں۔ چنانچہ 1932میں محمد اسد صاحب کراچی کی بندرگاہ پر اُترے جہاں قصوری برادران کے نمایندوں نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ٹرین کے ذریعے لاہور لے گئے۔

یہاں وہ کچھ عرصہ قصوری برادران کے مہمان بن کر رہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد اسلام سے محبت کرنے والی ایک اور مخلص شخصیت چوہدری نیاز علی کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی جو گہرے تعلقات میں بدل گئی۔ اُن کی دعوت پر جناب محمد اسد ضلع گرداسپور کے قصبے جمال پور میں چوہدری صاحب کے فارم ہاؤس پر منتقل ہوگئے۔ جمال پور میں ہی ان کی نوجوان مسلم اسکالر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات ہوئی اور پھر 1934میں ان کی پہلی بار مسلم دنیا کے عظیم مفکر علامہ اقبالؒ سے ملاقات ہوئی۔

راقم علامہ اسد کی علامہ اقبالؒ کے ساتھ ملاقاتوں اور لاہور میں ان کی مصروفیات اور سرگرمیوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، کئی کالم نگاروں کی حقائق کے منافی باتیں نظر سے گزرتی رہیں لیکن صحیح رہنمائی جناب اکرام چغتائی صاحب نے کی جن کی وساطت سے میں نے علامّہ اسد کی کتاب Home Comming of the Heart، منگواکر پڑھی، جس سے اصل حقائق کا پتہ چلا۔ علّامہ محمد اسد اس کتاب میں علامہ اقبالؒ سے اپنی پہلی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "لاہور میں اپنے ایک دوست چوہدری الٰہی بخش (جو ریٹائرڈ سیشن جج تھے) کے گھر میں اکثر جایا کرتا تھا۔

ان کی بیگم وفات پاچکی تھیں اور وہ اپنے کشادہ بنگلے میں اکیلے رہتے تھے اور صاحبانِ علم و دانش کی دعوتیں کیا کرتے تھے، ایک روز انھوں نے خاص طور پر مجھے شام کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آج ڈاکٹر محمد اقبالؒ صاحب بھی تشریف لارہے ہیں اور میں آپ کو اُن سے ملوانا چاہتا ہوں، ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اپنے افکار سے ہندوستان کے مسلمانوں پر سحر طاری کردیا تھا۔ وہ بہت معروف فلسفی اور شاعر تھے جن کے شعر اُس وقت زبان زدِ خاص و عام تھے۔

مسلمانوں کے نزدیک وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنھیں خدا نے بے پناہ دانش اور بصیرت عطا کی تھی اور جو مسلمانوں کی خامیوں کے ساتھ ان کی توانائیوں اور صلاحیّتوں کا بھی پورا ادراک رکھتے ہیں، مجھے خود ایسی شخصیت سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ میں نے ہندوستان آنے کے بعد اُن کا نام بہت سنا تھا مگر ملاقات کا موقع نہ ملا تھا، جب میں چوہدری الٰہی بخش کے گھر کے بڑے کمرے میں داخل ہوا تو محمد اقبالؒ صاحب نیچے قالین پر بیٹھے تھے اور کوئی درجن بھر لوگ ان کے گرد حلقہ بنا کر خاموشی اور گہری توجہ سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔

میرے داخل ہونے سے تھوڑی دیر کے لیے خاموشی ٹوٹی مگر میرے بیٹھتے ہی پھر محمد اقبالؒ صاحب نے اپنی بات وہیں سے شروع کردی جہاں سے چھوڑی تھی۔ وہ مسلم تاریخ کے کسی درخشاں دور کا ذکر کررہے تھے اور موجودہ دورِ زوال سے اس کا موازنہ کررہے تھے، وہ ایک استاد کی طرح بول رہے تھے اور سامعین شاگردوں کی طرح ہمہ تن گوش تھے۔ وہ اونچی نہیں بلکہ دھیمی آواز میں بول رہے تھے اور مختلف عمروں کے سامعین ان کی باتوں سے فیضیاب ہورہے تھے۔

پھر اچانک وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا، "میں نے آپ کی تحریر Islam at the Cross Roads پڑھی ہے، آپ کی باقی باتیں مجھے پسند ہیں مگر آپ کی فوری طورپر اجتہاد والی بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے"۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اجتہاد بے حد ضروری ہے، مگر اِس وقت جب کہ مسلمان غلامی اور زوال کا شکار ہیں، اس وقت کیا گیا اجتہاد خطرناک ثابت ہوگا اور یہ مسلمانوں میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنے کا موجب بنے گا"۔ میں نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بڑے پرجوش انداز میں کہا، نہیں ڈاکٹر صاحب ہمیں ضرور اجتہاد کے ذریعے اپنے بنیادی نظریے کی نئے سرے سے تشریح کرنا ہوگی، ورنہ ہم سماجی اور ثقافتی لحاظ سے جمود اور زوال کا شکار ہو جائیں گے"۔

مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ڈاکٹر اقبالؒ جیسی بلند قامت علمی شخصیت کے سامنے ایک نوجوان کا یہ انداز وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ناگوار لگ رہا تھا۔ چند ایک نے میرا موقف رد کرنے کے لیے بولنے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر اقبالؒ صاحب نے انھیں منع کردیا اور مسکراتے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا، "میرے نوجوان دوست! اس اہم موضوع پر تبادلہ خیال کے لیے یہ نشست مناسب نہیں، اس کے لیے آپ میرے پاس آئیں تاکہ ہم تفصیلی تبادلہ خیال کرسکیں، آپ کل ہی میرے گھر پر آجائیں " اور اس طرح میرا اُس غیر معمولی شخصیت کے ساتھ تعلّق اور دوستی کا آغاز ہوا جو اگلے چار سال یعنی ان کی وفات تک قائم رہا۔

محمد اسد مزید لکھتے ہیں، "ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے چہرے پر ہر وقت ایک دلآویز اور شیریں مسکراہٹ رہتی ہے جو ان کے چہرے اور شخصیت کو انتہائی پُر کشش بنادیتی ہے۔ ایک روز ہم لوگ ان کے کمرے میں نیچے قالین پر بیٹھے تھے اور ڈاکٹر صاحب حسبِ معمول اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے کہ میں نے کہا، "اس وقت جب کہ مسلمان ذلّت اور زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گِِرچکے ہیں۔

انھیں دوبارہ اُٹھانے کے لیے پھر کسی پیغمبر کی ضرورت ہے، لیکن حضرت محمدﷺ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آسکتا اور آپﷺ اپنی ابدی آرام گاہ میں جاچکے ہیں اور ہم اب اپنے نبی کریمﷺ کی آواز بھی نہیں سن سکتے"ڈاکٹر اقبالؒ اُٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے بازو سے پکڑ کر کہنے لگے" نہیں ہم نبی کریمﷺ کی آواز سن سکتے ہیں، اگر سُننا چاہیں تو۔

میں نے سوالیہ انداز میں ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگے نبی کریمؐ کی آواز آپؐ کے فرمودات اور احادیث کی صورت میں زندہ ہے اور اُن میں سے بے شمار احادیث بڑی معتبر ہیں، وہ حضورنبی کریمﷺ کی آواز ہی تو ہیں۔ میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا مگر ہندوستان یا دنیا میں کتنے مسلمان عربی جانتے ہیں، عربی جانے بغیر وہ نبی کریمؐ کی آواز کیسے سن سکتے ہیں، اس لیے وہ نیم خواندہ مُلّا کی طرف دیکھتے ہیں جو صرف گفتار کا شوقین ہے۔"

(جاری ہے)