Saturday, 20 April 2024
    1.  Home/
    2. Zulfiqar Ahmed Cheema/
    3. Mutabadil Kon?

    Mutabadil Kon?

    پاکستان کی موجودہ حالت نہ تو جاپان اور جرمنی جیسی ہے جنھیں ایک طویل اور خوفناک جنگ نے برباد کردیا اور جنھیں پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے میکارتھر جیسے ریفارمر اور ایڈنیور جیسے مدبّر عطا ہوئے۔

    نہ ہی یہ جنوبی افریقہ ہے جسے صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی نصیب ہوئی اور جہاں نسل اور رنگ کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی صدیوں کی نفرت کا خاتمہ کرکے رواداری اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کسی نیلسن منڈیلا کی ضرورت ہو۔

    نہ ہی ہم ٓآزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ جس کے لیے کسی اقبالؒ اور محمد علیؒ جناح کی ضرورت ہو، ویسے بھی ہمارے پاس نہ کوئی جناح ہے او نہ طیّب اردوان۔ ہمارے بڑے مسائل معاشی اور انتظامی ہیں، ایک نااہل حکومت نے ملک کو نہ صرف معاشی بدحالی کا شکار کردیا ہے بلکہ بدترین گورننس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

    ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور ان مسائل سے نکالنے کے لیے ایک ایسے منتظم کی ضرورت ہے جو جوش اور جذبے سے سرشار اور تجربے سے مالا مال ہواور جو افتادگانِ خاک کی مشکلات کم کرسکے اور ان کے دامن میں مسرّت کے چند پھول ڈال سکے۔ ملک کا درد رکھنے والے حضرات کی بہت بڑی اکثریت اس پر متّفق ہے کہ اِسوقت ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے اگر کوئی سب سے بہتر اور سب سے موزوں شخص ہے تو وہ شہباز شریف ہے، جو اِسوقت نہ صرف مسلم لیگ ن کی ضرورت ہے، بلکہ قوم کے لیے بھی وہی امید کی کرن ہے۔

    فلاحی پالیسیاں اور ترقیاتی منصوبے بنانے کا وقت بیت چکا، عمران خان صاحب کی حکومت نے جو گُل کھلانے تھے وہ کھلا چکے اور جوکارکردگی دکھائی تھی وہ سب کے سامنے آچکی ہے، کارکردگی کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں، حکومتی مشینری استعمال کرنے کے باوجود تقریباً ہر ضمنی الیکشن میں پِٹ گئے۔

    حکومت کے خلاف عوام کی نفرت عیاں ہوچکی ہے، اگلے الیکشن کا فیصلہ دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کا مستقبل ق لیگ سے مختلف نہیں ہوگا۔ وزیرِاعظم صاحب پارلیمنٹ میں اکثریّت کھو چکے ہیں اس لیے حکومت صرف نام کی رہ گئی ہے۔

    اگرچہ صلاحیّت اور اخلاص دونوں پر سوالیہ نشان تھے مگر نیک نیّتی اور مثبت سوچ کے ساتھ چل پڑتے تو آج تین سالوں بعد کچھ نہ کچھ نظر آرہا ہوتا، مگر خان صاحب نے نیک نیّتی کی مشعل اٹھانے کے بجائے انتقام کا گنڈاسہ اٹھا لیا ا ور اپنے سیاسی مخالفین اور ناقدین کی بربادی کو پہلی اور آخری ترجیح بنالیا، نتیجہ سامنے ہے، بری طرح ناکام ہوئے اور ملک کے اندر اور باہر کروڑوں پاکستانیوں کے دامن مایوسی سے بھردیے۔ دن رات پروپیگنڈہ کرکے وہ اپنے حامیوں کے دلوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے لیے نفرت پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔

    اس لیے حامی بددل ہیں اور پرانے سیاسی مخالفین سے متنفرّ۔ مگر متبادل کے طور پرایک نام آنے پر وہ بھی خاموش ہوجاتے ہیں، اور وہ ہے شہباز شریف، جسکی انتھک محنت اور غیرمعمولی کارکردگی کو اس کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر گلے شکوے بھی ہیں مگر یہ حقیقت ماننی پڑتی ہے کہ ملک کے تمام سیاستدانوں سے زیادہ محنتی، متحّرک، جوش وجنون سے کام کرنے والے، ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کروانے کے لیے دن رات ایک کر دینے والے شخض کانام شہباز شریف ہے۔ شہباز شریف کی گورننس عمران خان سے کئی گُنا بہتر تھی، میرٹ اور انصاف سے وابستگی کہیں زیادہ تھی۔

    جس طرح کے افسر حکومت نے اہم ترین عہدوں پر تعیّنات کیے ہیں، ایسے افسرشہباز شریف کا نام سن کر ڈرتے تھے، صرف امن وامان کی بہتری کے لیے وہ ایسے ادارے قائم کرگئے جو دس سال بعد بھی کوئی اور صوبہ نہیں کرسکا۔ ویسے بھی وہ ملوکانہ کرّوفر سے دور رہنے والا ایک سادہ اطوار شخص ہے جو دوسروں کی رائے سنتا اور اس کا احترام کرتا ہے۔ ملک کے معتبر اور غیرجانبدار ادارے تسلیم کرچکے ہیں کہ شہباز شریف کی گورننس ملک کے تمام سیاسی اور عسکری لیڈروں سے کہیں بہتر تھی۔ یہ وہ حقائق ہیں جس کا اعتراف ملک کے مقتدر ادارے بھی کرتے ہیں۔

    اس حقیقت سے عمران خان صاحب بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اسی لیے وہ شہباز شریف کو اپنا اصل حریف سمجھتے ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ شہباز شریف جیل سے باہر نہ آسکیں تاکہ بہتر متبادل عوام کو نظر نہ آئے۔ ویسے بھی انسانی خواہشات تو بے لگام ہوتی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ دنیا کے طاقتور ترین انسانوں کی بھی ہر خواہش پوری نہیں ہوسکتی، پوری کائنات کو اس کے خالق نے اپنے پلان اور اپنی مرضی سے چلانا ہے اور ہونا وہی ہے جو اصل خالق اور مالک چاہے گا۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں مفاہمانہ اور جارِحانہ دونوں پالیسیوں کے حامی موجود ہیں۔ مفاہمانہ کے زیادہ اور مخاصمانہ کے کم۔ مگر حتمی پالیسی اور فیصلہ میاں نوازشریف کا ہی ہوتا ہے۔ ان کی خواہش پر مسلم لیگ (ن) نے پی ڈی ایم میں بڑا فعال کردار ادا کیا جس کا انھیں خاصا فائدہ ہوا۔ بڑے بڑے جلسوں سے ان کے ورکر متحرک ہوئے اور ممبرانِ اسمبلی خود اعتمادی سے سرشار ہوئے مگر کچھ ایسے فیصلے ہوئے جن پر عملدرآمد ممکن نہ تھا۔

    پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی حکومت کو اگر آپ ڈھائی یا تین سال بعد دھرنوں اور لانگ مارچ کے ذریعے ختم کریں گے تو اپنے مخالفین کو خود ہی جواز فراہم کردیں گے کہ آیندہ وہ بھی آپ کو چَین سے حکومت نہ کرنے دیں اور آپ کے خلاف ہر دوسرے تیسرے مہینے دھرنا دیتے رہیں۔ دوسرا یہ کہ پیپلز پارٹی سے یہ توقع ہی عبث تھی کہ وہ سندھ حکومت کی قربانی دیکر استعفے دے دے گی۔

    ایک دوست کے بقول بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ "ضروری نہیں حکمرانوں کے خلاف جتنی نفرت اور غصّہ ہمارے یعنی اپوزیشن کے سیاسی لیڈروں کے دل میں ہے اُتنا ہی عوام کے دل میں بھی ہو، عوام کے غصّے اورنفرت کا صحیح اندازہ لگانے اور اس کے مطابق اپنی حکمتِ عملی تشکیل دینے کا نام ہی سیاسی بصیرت ہے"۔

    پچھلے سال دسمبر میں ہی استعفے دیکر اسلام آباد پر ھلّہ بولنے کا پروگرام بنانے والے عوام کی نبض کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے تھے۔ اس کی نسبت ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی پالیسی زیادہ ثمر آور ثابت ہوئی، مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تقریباً تمام ضمنی الیکشن جیت لیے جس سے اس کی سیاسی قوّت اور اس کے حامیوں کے اعتماداور حوصلے میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

    اتنی بڑی قوّت کو مقتدر قوتیں بھی نظر انداز نہیں کرسکتیں۔ تمام تر گلے شکووں کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاّد کم از کم ایک سال مزید چلنا چاہیے تھا، لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیّت سے شہباز شریف صاحب کو چاہیے کہ وہ دونوں پارٹیوں سے اپیل کرکے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ ختم کروائیں، دونوں الیکشن کمیشن میں اپنا کیس لڑیں مگر ایک دوسرے کے خلاف زہر آلود بیانات دیکرجگ ہنسائی کا موجب نہ بنیں۔

    جہاں تک ووٹ کی حُرمت تسلیم کروانے اور عوام کا حقّ ِ حکمرانی انھیں واپس دلانے (یعنی سویلین بالادستی قائم کرنے) کا تعلّق ہے تو یہ نظریّہ یقیناً بڑا دلفریب ہے اور حقیقی جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حکومت بنانے اور ہٹانے کا اختیار صرف اور صرف عوام کا ہو۔ مگر اس منزل کا حصول آسان نہیں ہے، جدید ریاست اور سیاست کے شناور سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس ہدف کے حصول کے لیے تین Cکی ضرورت ہے۔ یعنی انگریزی لفظ Cسے شروع ہونے والی تین خصوصیات… Character Courage، اور Competence کی ضرورت ہے۔ چیلنج کرنے والی لیڈر شپ کا کردار بے داغ ہو۔ اُس پر مالی یا اخلاقی کرپشن کے داغ نہ ہوں۔ وہ نڈر، جرأتمند اور قابل ہو۔ اپوزیشن جب تک ان اوصاف سے محروم رہے گی، فریقِ مخالف ان کی کمزوریوں سے مستفید ہوتا رہے گااور سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

    یہ کہنا درست نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی مخاصمانہ پالیسی بالکل ناکام رہی ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی جارحانہ تقریروں سے فریقِ مخالف بھی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ ہوا ہے۔ مگر عوام کا حقّ ِ حکمرانی لوٹانے کے لیے ایک طویل جنگ درکار ہے، جسکے لیے لیڈر شپ کے بے داغ کردار، جرأت اور قابلیّت کے علاوہ گاؤں کی سطح تک پارٹی کو منظّم کرنا اور ورکروں کی تربیّت اشد ضروری ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے پاس ابھی مطلوبہ سازوسامان نہیں ہے۔

    اندھے عقیدت مندوں کے لیے تو دلائل اور حقائق بے معنی ہوتے ہیں مگر عمران خان صاحب سے انقلاب لانے کی توقّعات وابستہ کرنے والے کروڑوں لوگ انتہائی مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے شمار ایسے ہیں جو پارٹی سے زیادہ ملک سے محبّت کرتے ہیں، ان کے چہروں پر بھی اب یہ سوال پڑھا جاسکتا ہے کہ عمران خان نہیں تو اورکون؟ میرا خیال ہے کہ ان کی پریشانی اور فرسٹریشن بھی شہباز شریف کے نام سے دور ہوسکتی ہے۔

    اس وقت مسلم لیگ (ن) کے لیے ضروری ہے کہ دھرنوں کے ذریعے یا اِ ن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے حکومت گرا کر عمران خان کو مظلوم یا victim نہ بننے دے بلکہ صرف اور صرف اگلے الیکشن پر نظر رکھے، اس کا سب سے بڑا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اگلے الیکشن میں اُسےlevel playing field میسّر آئے، 2018کی طرح اس کے ہاتھ پاؤںنہ باندھے جائیں اور انتخابات ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے پاک ہوں۔ مسلم لیگ ن کو اِس قسم کی یقین دھانی بھی شہباز شریف کی کوششوں سے ہی مل سکتی ہے۔ لہذٰا نوازشریف صاحب کو چاہیے کہ شہباز شریف صاحب کو ابھی سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کردیں تاکہ وہ شیڈو پرائم منسٹر کی حیثیّت سے پوری خوداعتمادی اور یکسوئی کے ساتھ اپنی پارٹی کی قیادت کرسکیں۔