Tuesday, 09 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Tayeba Zia
  4. Ladle Se Zehni Mareez Tak Ka Safar

Ladle Se Zehni Mareez Tak Ka Safar

طویل پریس کانفرنس کے دوران ایک مرتبہ بھی کسی کا نام نہیں لیا گیا۔ کسی " ذہنی مریض " سے متعلق گفتگو ہوتی رہی مگر عاشقان غم و غصہ میں مبتلا ہو گئے کہ ان کے مرشد کی بات ہو رہی ہے۔ کچھ تکبر اور خود پرستی اور باقی کالے جادو نے مرشد کی ذہنی حالت ایسی بنا دی ہے کہ " ذہنی مریض " سنتیہی فوراً پہچان لیتیہیں کہ ان کیمرشد کا ذکر خیر ہو رہا ہے۔ لاڈلیسے ذہنی مریض تک کا سفر انتہائی افسوسناک ہے۔

پاکستان کی سیاست میں جو جتنا 'لاڈلا، ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے۔ ایسے سیاستدانوں کی طویل فہرست ہے جن کا سیاسی جنم آمروں کی کیاریوں میں ہوا اور پھر وہ عوام میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ پہلے قبولیت ملی اور پھر مقبولیت۔ لاڈلے بچے عموماََ بدتمیز ہوتے ہیں، کسی کی بات نہیں سنتے، نہ بڑوں کا ادب کرتے ہیں نہ کسی اور کا لحاظ کرتے ہیں، من مانی کرتے ہیں۔ گالم گلوچ، مارکٹائی سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں، الزام بھی لگاتے ہیں۔

اس ملک میں سیاستدانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ پھانسی پر چڑھا دیئے گئے، قتل ہوئے، بم دھماکوں میں مار دیئے گئے، وطن بدر ہوئے، غداری کے الزام لگے، کفر تک کے فتوے لگے۔ جیلوں میں مویشیوں کی طرح ڈال دیا گیا۔ مگر کسی نے ریاست اور فوج کے خلاف غدارانہ پروپیگنڈا کیا نہ دشمن ملکوں کے آلہ کار بنے۔ ماضی کے سرپرست ذہنی مریض کو لاڈلا بنا کر پیش کرتے رہے۔ اس کے لیے عدلیہ اور میڈیا سمیت پورے نظام کو یرغمال بنایا گیا اور آخر کار اسی ذہنی مریض کو قوم پر مسلط کر دیا گیا اور آج اس نے فیلڈ مارشل کو "ذہنی مریض" کہہ دیا؟ لیکن جب یہی بدتمیز لاڈلا کھلے عام جلسوں میں "اوئے نواز شریف"، "اوئے زرداری" اور "اوئے ڈیزل" کے نعرے لگاتا رہا تو سرپرستوں کا سوشل میڈیا بریگیڈ اسے وائرل کرواتا رہا۔

اسی ذہنی مریض سے 126 دن تک دھرنے دلوائے گئے۔ اسی مریض نے پارلیمنٹ کا دروازہ توڑا، پی ٹی وی بلڈنگ پر قبضہ کروایا، آئی جی پولیس کو پھانسی دینے کی دھمکی دی لیکن لاڈلے کو لگام ڈالنے کی بجائے حکومت کو صبر و برداشت سے کام لینے کے مشورے دیئے جاتے رہے۔ جب اس کے پیروکار پولیس پر ڈنڈے برساتیتو سرپرست اس کی ہر فرعونیت اور آمریت پر خاموش رہتے۔ گاڈ فادر نے ایک ذہنی مریض کو محض اس لیے وزیراعظم بنوایا تھا کہ وہ سیاستدانوں کو گالم گلوچ کرتا تھا۔ اتنی پلین فیلڈ دے رکھی تھی کہ صحافیوں کو بلا کر اسی ذہنی مریض کے بارے میں مثبت رپورٹنگ کا حکم نامہ جاری کیا جاتا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب سے سوال ہوا کہ" آپ یہ باتیں ماضی میں دیگر رہنماؤں کے متعلق بھی کر چکے ہیں۔ "تو ڈی جی صاحب نے اعتراف کیا: "جو ہم نے آج کہا، یہ ہم نے پہلیکبھی نہیں کہا۔ جو انہوں نے کیا، وہ بھی کبھی کسی نے نہیں کیا۔ "لیکن جو لاڈ اور پیار اس کو دیا پہلے کبھی کسی اور کو نہیں دیا۔ "اس ملک میں بھٹو جیسے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹا گیا اور پھر ان کا عدالتی قتل ہوا۔ پورا خاندان زیر عتاب آیا، بیٹی کو جیل میں ڈالا گیا، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو نے کبھی بھی فوج، بلکہ اپنے والد کے قاتل ضیاء الحق کے بارے میں بھی، اس قسم کا بازاری لہجہ استعمال نہیں کیا۔ دو مرتبہ کی منتخب وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو سر عام شہید کر دی گئیں۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، سندھ میں ہنگامے شروع ہو گئے۔

قوم پہلے ہی ڈکٹیٹر مشرف کی طویل آمریت سے تنگ آ چکی تھی۔ آصف علی زرداری کی ایک آواز سے سب کچھ بھسم ہو سکتا تھا، لیکن اس نے ایسے موقع پر بھی "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا۔ جنرل مشرف نے آئین شکنی کرتے ہوئے دو تہائی اکثریت سے منتخب وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹا۔ ان کی کنپٹی پر پستول رکھاگیا۔ پورے خاندان کو جلاوطنی کی صعوبت اٹھانا پڑی۔ ایک نہیں، تین بار نواز شریف کی کرسی سازش کا شکار ہوئی، لیکن نواز شریف نے کبھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ آج بھی پرویز مشرف کا نام احترام سے لیتے ہیں لیکن اُس ذہنی مریض کا ایک ہی منشور ہے: "میں نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ شاہ محمد بن سلمان نے کہا تھا: "یہ کیا چیزآٹھا لائے ہو؟"

اب ڈی جی صاحب سوال کر رہے ہیں "اوئے تم ہو کون۔ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟"۔۔ جو ماں باپ اپنے بچوں کو لاڈلا بناتے ہیں عموماً انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسے بگڑے ہوئے لاڈلے ایک حد کے بعد باپ سے بھی گستاخی کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کی بنی بنائی عزت کی لاج نہیں رکھتے۔ ایسے میں ماں باپ کے پاس یہ کہنے کا بھی چارہ نہیں رہتا کہ" بچہ ہے بڑا ہو کر سنبھل جائے گا" کیونکہ بچے کے سنبھلنے تک گھر کی چولیں ہل چکی ہوتی ہے۔ پچھلوں کا گناہ موجودہ سیٹ آپ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی صاحب کی پریس کانفرنس میں کھلا پیغام دے دیا گیا ہے کہ "انف از انف "۔۔ کاش کچھ سخت فیصلے بروقت کر لئیے جاتے تو ریاست آج بہت سے نقصانات سے بچ جاتی۔