پہلے وقتوں کے ایک قاضی صاحب کا واقعہ ملتاہے۔ کہتے ہیں کہ میرے چچا کی بیٹی نہایت دولت مند تھی۔ میں نے اس سے شادی کر لی اور اس کے مال سے استفادہ کرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد خفیہ طور پر دوسری شادی کر لی۔ ادھر کسی شخص نے میری پہلی بیوی کو بتا دیا، بس پھر کیا تھا، گھر میں طوفان آگیا۔ میری بیوی سخت ناراض ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم میری دولت استعمال کرتے تھے، آج کے بعد تم ایسا نہیں کر سکو گے۔ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ مجھے رکھنا چاہتے ہو تو دوسری کوفوراً طلاق دو۔ گھر میں یہ جھگڑا چلتا رہا۔
میں نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ میری کوئی دوسری بیوی نہیں ہے، تو اس نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو یوں کہو میں تمہارے سوا تمام بیویوں کو طلاق دیتا ہوں۔ اب میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کروں کہ میری پہلی بیوی بھی راضی ہو جائے اور اس کو تسلی ہو جائے کہ میں نے دوسری شادی نہیں کی اور دوسری بیوی کو طلاق بھی نہ دینی پڑے۔ خاصی سوچ بچار کے بعد میں اپنی دوسری بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ تم میری پہلی بیوی کے پاس جائو ملاقات کے وقت خوب رونا، اس کو بتانا کہ میرے شوہر نے مجھے بتائے بغیر ایک اور شادی کر لی اور میرا مال اپنی دوسری بیوی پر خرچ کرتا ہے۔
مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ چونکہ تمہارا خاوند قاضی ہے اس سے میری پریشانی بیان کرو کہ وہ میرے ساتھ انصاف کرے اور میرے شوہر کو عدالت میں بلا کر اس سے پوچھ گچھ کرے۔ تمہاری بات سن کر وہ تمہیں میرے پاس لے کر آئے گی باقی معاملہ میں خود سنبھال لوں گا۔ قاضی کہتے ہیں کہ ہدایت کے مطابق میری دوسری بیوی ہمارے گھر آئی۔ میں اس وقت گھر پہ ہی تھا۔ میری دوسری بیوی نے آتے ہی زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
باقی تمام معاملہ بھی میری ہدایت اور توقع کے مطابق ہوا۔ میری پہلی بیوی نے جب اس کی دکھ بھری کہانی سنی تو کہا بہن! میرا شوہر قاضی تو تمہارے شوہر سے بھی بدتر ہے۔ وہ بھی مجھے دھوکے میں رکھ کر دوسری شادی کئے ہوئے ہے۔ یہ کہہ کر میری پہلی بیوی میری دوسری بیوی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے غصے میں میری مجلس میں آئی اور کہنے لگی اس بدنصیب عورت کا حال بھی میرے جیسا ہے۔ اس کی بات سنو اور اس کے ساتھ انصاف کرو۔ میں نے دوسری بیوی سے پوچھا کہ کیا تمہارے شوہر نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے؟
اس نے کہا نہیں! کبھی تم نے اس کی دوسری بیوی دیکھی ہے؟ نہیں! پھر میں نے کہا بی بی اللہ کا خوف کھا اور سنی سنائی باتوں پر یقین مت کر، کیونکہ حاسد لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو میاں بیوی کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔ میری بیوی سے بھی کسی نے چغلی کھائی ہے کہ میں نے دوسری شادی کر رکھی ہے جبکہ میں تمہارے سامنے اپنی بیوی سے قسم کھا کر کہتا ہوں کہ (اس دروازے کے باہر اگر میری کوئی بیوی ہے تو میں اسے تین بار طلاق دیتا ہوں) یہ سنتے ہی میری پہلی بیوی نے عقیدت سے میرے ہاتھ پر بوسہ دیا اور کہنے لگی مجھے اب یقین ہوگیا ہے کہ آپ پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔
قاضی کو اپنی ذہانت و فطانت سے دوسری بیوی کو طلاق بھی نہ دینا پڑی اور قسم کی لاج بھی رہ گئی۔ مگر جب قسمت بری ہو تو جھوٹ کھل کر ہی رہتا ہے۔ جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج ہائیکورٹ تقرری غیرقانونی قرار دے دی گئی۔ موصوف کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا جواب، متنازعہ تعلیمی اسناد کے ہمراہ جمع کروائیں مگر موصوف ایسا کرنے میں ناکام رہے، اس عدالت کے پاس اس معاملے میں مزید کارروائی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا، جسٹس طارق جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی کے وقت ایل ایل بی کی مؤثر ڈگری نہیں رکھتے تھے۔
فیصلے کے مطابق ایل ایل بی کی مؤثر ڈگری وکیل کی حیثیت سے انرولمنٹ کے لیے بنیادی شرط ہے، جب وہ وکیل بننے کے اہل نہیں تھے تو ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تعیناتی کے بھی اہل نہیں تھے، جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج تقرری قانونی اختیار کے بغیر تھی۔ بے شک نظامِ عدل انصاف پسند ہوتا ہے۔ عدل یا انصاف کرنے والے کو قاضی، عادل، منصف یا جج کہا جاتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن پاک میں فرمان ہے کہ: "میں کسی ایسی قوم کو تباہ نہیں کرتا جو حق سچ پر کھڑی ہوتی ہے"۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ: "کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں"۔
جھوٹا اور دھوکے باز خود بخود بے نقاب ہو جاتا ہے۔ فیض یافتہ تمام بندوبست آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ فیض یافتہ ججوں نے فیض نیازی گٹھ جوڑ کو کامیاب کرنے کے لئے گِٹّیجوڑ کے جھوٹ بولے، انصاف کے پرخچے اڑائے۔ مسٹر اڈیالہ نے دوسری تیسری شادی ہی نہیں چھپائی بلکہ نجی سیاسی مذہبی ہرمحاذ پر فراخدلی سے جھوٹ بولے اور جب مکافات عمل کا دور شروع ہوا تو انہیں آج کی عدلیہ بے انصاف دکھائی دے رہی ہے؟
جعلی ڈگری یافتہ جج جہانگیری بھی فیض یافتہ ہے۔ دوران سماعت رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت پیش ہوئے۔ عدالت کو بتایا کہ طارق جہانگیری نے جعلی انرولمنٹ نمبر سے ایل ایل بی کا امتحان دیا، پابندی کے دوران ہی پیپر کلیئر کئے۔ کالج کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں۔ رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری کینسل کردی ہے۔ اب ان فیصلوں کا کیا ہوگا جو ایک جعلی جج کے قلم سے لکھے جاتے رہے؟ جج کا عہدہ غیر سیاسی ہونا چاہئے مگر بد قسمتی سے وطن عزیز میں الا ما شا اللہ جج حضرات سیاسی ہی نہیں اب تو جعلی ڈگری یافتہ بھی نکل رہے ہیں۔