یہ واقعہ بھی اس ملک میں پہلا سانحہ نہیں۔ یہاں طاقتور کا کتا بھی باس کہلاتاہے اور عوام کیڑے مکوڑے۔ اس بے بس متوسط بلتی خاندان نے بھی طاقتورکے سامنے سرنڈر کر دیا۔ جب بھی کمزور لواحقین طاقتور کے سامنے خاموش ہو جاتے ہیں تو اس خاموشی کو دیت، یعنی خون بہا کی بھاری رقم کے عوض معافی نامہ پر دستخط سمجھا جاتا ہے۔
سکردو بلتستان سے تعلق رکھنے والی دو طالبات امیروں کی شاہراہِ دستور پر کسی امیر زادے کی شاندار گاڑی تلے بری طرح کچلی گئیں اور تدفین کے دوسرے روز قاتل کو خاموشی سے معاف کر دیا جاتا ہے؟ جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت میں متاثرہ فیملی نے ملزم کی معافی کا بیان دیدیا۔ عدالت نے ملزم کے خاندان اور جاں بحق لڑکیوں کے خاندانوں میں صلح ہونے کے بعد ملزم کے خلاف کیس ختم کر دیا۔ متاثرہ فیملیز کے بیان کے بعد ملزم کی ضمانت منظور کر لی گئی اور عدالت نے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا۔
ایک لڑکی کا بھائی عدالت میں بیان دینے آیا تھا جبکہ اس کی والدہ کا آنلائن بیان ریکارڈ کیا گیا۔ دوسری جاں بحق لڑکی کے والد کا بیان بھی عدالت میں ریکارڈ کیا گیا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں سیکریٹریٹ چوک شاہراہِ دستور پر گاڑی نے اسکوٹی کو ٹکر مار دی تھی جس کے نتیجے میں اسکوٹی پر سوار سکردو کی 2 لڑکیاں جاں بحق ہوگئی تھیں، جاں بحق لڑکیوں کی شناخت ثمرین اور تابندہ کے نام سے ہوئی تھی۔ واقعہ کا مقدمہ جاں بحق لڑکی ثمرین کے بھائی کی مدعیت میں تھانہ سیکریٹریٹ میں درج کیا گیا تھا جبکہ پولیس نے گاڑی کے ڈرائیور کو گرفتار کر لیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محمد آصف کے کم عمر بیٹے نے الیکٹرک اسکوٹی پر جانے والی دو لڑکیوں کو کچل دیا۔ گاڑی کی ٹکر سے دونوں لڑکیاں موقع پر جاں بحق ہوگئیں جن کی عمریں 25 اور 27 برس تھیں۔ پولیس نے ڈرائیورکو گرفتار کرکے گاڑی تحویل میں لے لی۔ مرنے والی ایک لڑکی ثمرین پاکستان نیشنل کالج آف آرٹس میں انٹیرئیر ڈئزائننگ کی طالبہ تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق گاڑی انتہائی تیز رفتار تھی اور ٹکر اتنی شدید تھی کہ اسکوٹی کئی فٹ دور جا گری۔ ملزم ابو زر کی تاریخ پیدائش جولائی 2009ء ہے، ملزم کا ڈرائیونگ
لائسنس بھی نہیں بنا ہوا۔ حادثے کے وقت ملزم سوشل میڈیا ایپ کے لیے ویڈیو بنا رہا تھا۔ دریں اثنا پولیس نے ملزم کو مقامی عدالت میں پیش کردیا، پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم ابو ذر ولد محمد آصف کا 7 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، عدالت نے ملزم کا چار روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ ملزم ابو ذر ولد محمد آصف کا مستقل پتا کوئٹہ کا ہے۔ پرچہ ریمانڈ میں کہا گیا کہ ملزم کے پاس شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس موجود نہیں ہے جبکہ ملزم کا بیان ہے کہ اس کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے۔
پرچہ ریمانڈ میں بتایا گیا کہ حادثے میں دونوں لڑکیاں شدید زخمی ہو کر گریں اورموقع پر ہی ان کی موت واقع ہوگئی، ملزم کے مطابق وہ وقوعہ سے چند لمحے قبل اسنیپ چیٹ پر وڈیو بنا رہا تھا۔ تابندہ اور ثمرین کو مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ خاندان شدید غم اور صدمے میں مبتلا ہے۔ 25 سالہ تابندہ اپنے گھر کے اخراجات میں والد کا ہاتھ بٹاتی تھیں جبکہ وقوعہ کے وقت وہ اپنی سہیلی ثمرین حسین کے ہمراہ اسکوٹی پر جاب سے واپس گھر آرہی تھیں۔ دونوں کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے سکردو سے تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دیت کی رقم کو بڑھا کر 98 لاکھ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے قانون میں قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے لیکن اگر مدعی چاہے تو ملزمان سے دیت کی رقم لے کر معاف کر سکتا ہے۔