Sunday, 15 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Syed Badar Saeed
    4. Pak Bangla Taluqat Ka Taza Baab

    Pak Bangla Taluqat Ka Taza Baab

    کبھی کبھار تاریخ خاموشی سے اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔ جنوبی ایشیا کا خطہ جنگوں، سانحات اور سیاسی نفرتوں سے بھرا پڑا ہے لیکن جب کوئی دروازہ کھلتا ہے تو صرف سفارتکاروں کے قدموں کی چاپ نہیں سنائی دیتی بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن بھی بدلتی ہے۔

    لاہور پریس کلب میں چند دن پہلے کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ بظاہر لگ رہا تھا کہ یہ محض ایک رسمی ملاقات ہے لیکن جب پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے صحافیوں سے کھل کر گفتگو کی تو لگا جیسے ماضی کی دھند میں سے کوئی امید کی کرن نکل آئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس روشنی کو دیکھنے اور اپنانے کے لیے تیار ہیں؟

    میں پریس کلب کی منتخب باڈی کے ہمراہ محترم ہائی کمشنر کے ساتھ اسٹیج پر تھا، اس وقت مجھے لگا یہ وہ لمحہ ہے جس کا ہمیں بطور پاکستانی برسوں سے انتظار تھا۔ 1971 کے زخم آج بھی بہتوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ ہم نے اس تلخ تاریخ پر بہت سی تقریریں کیں، بہت سی کتابیں لکھیں، بہت سے الزام تراشے، لیکن مکالمہ؟ مکالمہ برسوں بعد ہوا ہے اور وہ بھی لاہور میں صحافیوں کے درمیان بیٹھ کر ہوا۔ یہ مکالمہ بہت پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن خوشی ہے کہ کسی نے تو ہاتھ بڑھایا ہے۔ اس روز جبہائی کمشنر اقبال حسین نے کہا کہ "جنوبی ایشیا جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا"، تو ایک لمحے کو یوں لگا جیسے کسی نے دل کی بات زبان پر رکھ دی ہو۔ انہوں نے ماضی کو چھیڑنے کے بجائے مستقبل کی بات کی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا نیا بنگلہ دیش ہے جو ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکا ہے، جو سافٹ پاور کو اپنا ہتھیار مانتا ہے، جو پاکستان کے ساتھ نئے رشتے بنانے کو تیار ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی تیار ہیں؟

    لاہور پریس کلب میں مختلف ممالک کے سفیر تشریف لاتے ہیں، کچھ صرف منتخب باڈی سے ملاقات کرتے ہیں اور کچھ "میٹ دا پریس" پروگرام کا حصہ بن کر جنرل ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مکالمہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے ہمیں دوست ممالک کی ترجیحات اور پاکستان کے لیے کھلنے والے نئے راستوں کا علم ہوتا ہے۔ اس روز بنگلہ دیش سے لاہور کے صحافیوں سے ملنے صرف ایک سفیر نہیں آیا تھا بلکہ ایک سوچ آئی تھی۔ وہ سوچ جو چاہتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست پروازیں دوبارہ شروع ہوں تاکہ ہمارے طالبعلم، ہمارے مریض اور ہمارے تاجر ایک دوسرے سے جڑیں اور کرکٹ صرف اسکور بورڈ پر ہی نہیں، دل میں بھی خوشیوں کا باعث بنے۔

    پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی برف پگھل رہی ہے اور اس میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہائی کمشنر اقبال حسین نے بھی صحافیوں کے باہمی روابط پر زور دیا اور لاہور پریس کلب کی قیادت نے جو جواب دیا وہ کسی بھی سرکاری نوٹ سے زیادہ مؤثر پیغام تھا کہ ہم کھلے دل کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔

    یاد رہے کہ بنگلہ دیش آج صرف ماضی کا اسیر نہیں رہا، وہ ایک نئی اقتصادی طاقت بن رہا ہے۔ اس کی برآمدات، سوشل انڈیکیٹرز اور عالمی سافٹ امیج پاکستان کے لیے سبق بھی ہے اور موقع بھی۔ اب سوال ہم نے اپنے آپ سے کرنا ہے کہ کیا ہم اب بھی پرانی سوچ کے دائرے میں مقید رہیں گے یا مستقبل کو گلے لگائیں گے؟ کرکٹ ڈپلومیسی، میڈیا ڈپلومیسی، تعلیمی تعاون اور صحت کے حوالے سے باہمی اقدامات؟ یہ سب محض الفاظ نہیں ہیں، یہ پُل ہیں۔ ان پُلوں کو ہم نے خود بنانا ہے اور خود ہی عبور کرنا ہے۔ لاہور میں بنگلہ دیشی سفیر کو پھول اور اعزازی شیلڈ دینا محض رسم نہیں تھی، ان کی صحافیوں کے ساتھ تصاویر اور مسکراہٹوں کے تبادلے صرف پروٹوکول کا تقاضہ نہیں تھے بلکہ یہ ایک اشارہ تھا: "ہم بدل چکے ہیں، اب آپ کی باری ہے۔ "

    آج اگر ہم نے اس لمحے کو ضائع کر دیا تو شاید پھر کوئی دوسرا اقبال حسین نہ ہو، کوئی دوسرا پریس کلب نہ ہو، کوئی اور کھڑکی کھلنے کا موقع نہ ہو۔

    تاریخ بار بار موقع نہیں دیتی۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش نے اب ہاتھ نہ بڑھایا تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف جنگوں کے مؤرخ کے طور پر یاد رکھیں گی، تعلقات کے معمار کے طور پر نہیں۔ اگر ہم نے ہمت کر لی تو شاید کل کو تاریخ کی کتابوں میں لکھا جائے:

    "یہ وہ دن تھا جب دلوں کی سرحدیں کھلیں اور برصغیر نے ایک نئے باب کا آغاز کیا"۔

    وزیراعظم شہباز شریف ہی نہیں وزیراعلی پنجاب مریم نواز بھی ہمسائیہ ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستانی حکومت خطے میں امن کی خواہاں ہے اور پاکستانی قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ پرامن ماحول میں یہ خطہ بھی ترقی کرے جسے کئی دہائیوں سے جنگ کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے۔

    پاکستان بھی بنگلہ دیش سمیت دیگر ہمسائیہ ممالک کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کرنا چاہتا ہے جہاں کاروبار، ترقی، تعلیم اور بزنس کے سنگ میل نظر آئیں۔ بنگلہ دیشی سفیر کا پاک بھارت جنگ کے فوراََ بعد لاہور کے صحافیوں کے درمیان پہنچنا واضح پیغام ہے۔ اس پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک عرصہ سے جاری سرد مہری کی برف پگھل رہی ہے اور خطے میں پاکستان کا ایک اور سٹریٹیجک پارٹنر اپنے ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہوگیا ہے یہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے فروغ کا اہم سنگ میل ہے۔ دو طرفہ تجارت سے لے کر قیام امن کی کوششوں تک بنگلہ دیش اور پاکستان مل کر ایک نئے اور پرکشش سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔