صحافت خبر کی تلاش کا نام تھا۔ اسے سچائی کی کھوج، واقعات کی غیر جانب دار رپورٹنگ اور عوام تک حقائق پہنچانے کا مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب یہی صحافت ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے تو فریضہ "فریب" بن جاتا ہے، خبر اشتعال انگیزی میں بدل جاتی ہے اور ماضی کے حق گو اینکر ڈھول بجانے والے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ بھارتی میڈیا اسی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔
ایک صحافی کی حیثیت سے میری تربیت کا حصہ رہا ہے کہ میں پاکستانی میڈیا کے ساتھ ساتھ بھارتی اور دیگر غیر ملکی اخبارات کا بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھارتی میڈیا نے گزشتہ ایک دہائی میں جس تیزی سے خود کو سنجیدہ ادارے سے ایک شور مچاتی، دھواں چھوڑتی اور جھوٹ بکتی فیکٹری میں بدلا ہے، اس کی مثال جنوبی ایشیا میں نہیں ملتی۔ آپ کسی بھی بڑے بھارتی چینل کو شام کے پرائم ٹائم میں دیکھ لیں۔ موضوع ہوگا پاکستان، لہجہ جارحانہ ہوگا اور اینکر کسی محاذِ جنگ سے براہِ راست کمان سنبھالتا محسوس ہوگا۔ بھارتی چینل پر اب سوالات نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے لکھے فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ مخالفین کو سننے کی اجازت نہیں ہے، صرف چپ رہنے یا چیخنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
پاکستان پر بھارت کے حملے کے بعد جو لوگ بھارتی میڈیا سے "خبر" تلاش کر رہے ہیں اور ہر کاروائی کی اطلاع پر سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے تو تصدیق نہیں کی، انہیں شاید علم نہیں کہ بھارتی میڈیا کی سب سے بڑی بیماری فیک نیوز ہے، جو اب اس کے نظام کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ آج کل ہی نہیں ہو رہا بلکہ 2021 میں بھی ریپبلک ٹی وی نے افغانستان کے ایک ویڈیو گیم "ARMA 3" کی فوٹیج کو پاکستانی فضائیہ کا حملہ قرار دے کر پیش کیا لیکن بعد میں جب یہ جھوٹ بے نقاب ہوا تو معذرت تو دور کی بات ہے اس چینل یا کسی بھی ذمہ دار نے وضاحت تک نہیں دی تھی۔ اسی طرح ANI جیسی بڑی نیوز ایجنسیز کئی بار غلط اور جھوٹی خبروں کو سچ بنا کر پیش کر چکی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2020 سے 2023 کے درمیان بھارتی میڈیا میں 100 سے زائد ایسی جھوٹی خبریں فیکٹ چیکرز کے ذریعے پکڑی گئیں جن کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا تھا اس سے بھارتی میڈیا کی کریڈیبلٹی اور بھارتی سرکار کے پاکستان مخالف جنگی جنون کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
بھارت کا یہ پراپیگنڈا صرف نیوز چینلز تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ایک پورا ادارہ اس کام پر مامور ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا آئی ٹی سیل ہزاروں کی تعداد میں جعلی اکاؤنٹس چلا رہا ہے۔ ان جعلی شناختوں کے ذریعے پاکستان مخالف مواد، اقلیت دشمنی اور حکومت کی واہ واہ کا طوفان بیک وقت برپا کیا جاتا ہے۔ بی بی سی، ڈی ڈبلیو اور دیگر اداروں کی تحقیقات کے مطابق 2022 میں بھارت میں 25 ہزار سے زائد جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پکڑے گئے جو جھوٹی خبروں کے ذریعے رائے عامہ کو ہانکنے کا کام کر رہے تھے۔
اگر ہم بین الاقوامی پراپیگنڈا کی بات کریں تو وہاں بھارتی سازشیں اور بھی خوفناک شکل اختیار کرتی ہیں۔ یورپی یونین کی تحقیقاتی ادارے EU DisinfoLab نے "انڈین کرونیکلز" کے نام سے ایک ایسی مہم کو بے نقاب کیا ہے جس کے تحت 15 سال سے بھارت دنیا بھر میں 750 سے زائد جعلی نیوز ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان مخالف بیانیہ چلا رہا تھا۔ یہ سائٹس عالمی اداروں کے جعلی نام، جعلی صحافی، جعلی رپورٹس اور جعلی این جی اوز کے ذریعے اپنا زہر پھیلا رہی تھیں۔ ان کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور بھارت کو مظلوم دکھانا تھا۔
اب تو بھارتی میڈیا نے جنگی جنون کو بھی حب الوطنی کے لبادے میں لپیٹ دیا ہے۔ 2019 کی پاک بھارت کشیدگی کے دوران جب بھارتی فضائیہ نے بالا کوٹ میں نام نہاد حملہ کیا تو بھارتی میڈیا نے اس کو ایک تاریخی فتح بنا کر پیش کیا۔ ایک چینل نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ 300 دہشتگرد مارے گئے حالانکہ نہ کوئی لاش ملی، نہ کوئی عمارت گری اور نہ کوئی ثبوت ملا۔ اس کے برعکس جب پاکستان نے اگلے ہی دن بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو مار گرانے کے بعد زندہ پکڑ کر واپس کیا تو بھارتی میڈیا نے اس واقعے پر یا تو خاموشی اختیار کی یا اسے ایک "سٹریٹجک جیت" کہہ کر حقیقت سے فرار حاصل کیا۔ ابھی نندن کو پاکستانی دیہاتیوں سے پڑنے والی "چپیٹیں" بھارت کے نزدیک "سٹریٹیجک جیت" ہے۔ اگر یہی سٹریٹیجک جیت ہے تو پاکستانی ہر بھارتی فوجی کو ایسی "جیت" سے ہمکنار کرنے کے لیے تیار ہیں جس کا اندازہ بھارتی چوکیوں پر لہرائے گئے "سفید جھنڈے" سے لگایا جا سکتا ہے۔
جو لوگ میری طرح طویل عرصہ سے بھارتی میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ بھارتی میڈیا اب ایک باضابطہ پروپیگنڈا فیکٹری بن چکا ہے جو روزانہ عوام کو ایک مصنوعی دشمن دکھاتا ہے تاکہ حقیقی مسائل جیسے مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور اقلیتوں پر مظالم دبے رہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، دلتوں پر تشدد، سکھوں کی بے حرمتی، ان سب پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کا کارڈ ہر دن، ہر شو، ہر ہیڈلائن میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے بھی اب بھارتی میڈیا کی ساکھ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ "رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز" کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق بھارت آزادیٔ صحافت کے عالمی انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 161ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ یہی وہ تصویر ہے جو اصل بھارت کی نمائندگی کرتی ہے، نہ کہ فلمی انداز میں اینکرز کا غصے سے کانپتا ہوا چہرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی عوام کو اس پراپیگنڈا کے پیچھے کارفرما چالاکی کا اندازہ ہے؟ شاید کچھ کو حالیہ جنگ سے اندازہ ہوگیا ہو مگر اکثریت اب بھی اس من گھڑت حب الوطنی کو حقیقت مان کر جی رہی ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر میڈیا صرف نعرے لگاتا رہے تو وہ آئینہ نہیں رہتا بلکہ نقاب بن جاتا ہے، جھوٹ کا نقاب، نفرت کا اور شکست خوردہ ذہنیت کا نقاب جو کہ بھارتی میڈیا بن چکا ہے۔
پاکستان کو بھارتی میڈیا کی چیخ و پکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے ہمیشہ دلیل، تحقیق اور وقار کے ساتھ اپنی بات رکھی ہے۔ مگر ہمیں عالمی برادری کو مسلسل یہ یاد دلانا ہوگا کہ آج کا بھارتی میڈیا صحافت نہیں کر رہا بلکہ پراپیگنڈا کی ایک مہم چلا رہا ہے۔ بھارتی صحافی اب قلم چلانے کی بجائے خنجر لہرا رہے ہیں کیونکہ وہ صحافی نہیں رہے بلکہ پراپگنڈے فیکٹری کے مزدور بن گئے ہیں۔ جنگ کے پہلے ہی ہلے میں ہونے والے نقصان نے ان مزدوروں کو "اوور ٹائم" پر لگا دیا ہے۔