پاکستان میں نظامِ انصاف ہمیشہ سے عوامی تنقید کی زد میں رہا ہے۔ تاخیر، بدانتظامی، ناقص تفتیش اور عدالتی رویوں نے ہمیشہ شہریوں کو مایوسی اور بداعتمادی کی دلدل میں دھکیلا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں پنجاب میں عدالتی ڈھانچے اور فوجداری نظام میں ہونے والی اصلاحات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، ان اصلاحات پر بات ہو رہی ہے کہ کیا ہم واقعی انصاف کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ یا پھر یہ سب بھی وقتی کارروائیاں ہیں؟
اگلے روز پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ بتا کر پریشان کر دیا کہ صوبے میں ہر سال تقریباً دس لاکھ فوجداری مقدمات درج ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر سال قتل، زنا، ڈکیتی، اغوا، منشیات، دھوکہ دہی اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں اتنی بڑی تعداد شامل ہے جو بذاتِ خود ہمارے سماجی زوال کی غماز ہے۔ یہ محض فوجداری مقدمات کی بات ہے، دیوانی مقدمات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جن میں طلاق، وراثت، کاروباری تنازعات اور معاہدہ خلافی جیسے جرائم شامل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اس ناقابلِ تصور ورک لوڈ کا پہلا شکار پولیس ہے۔ ایک تفتیشی افسر بیک وقت 150 سے زائد مقدمات کی چھان بین کر رہا ہوتا ہے۔ ایسا نظام کسی انسانی استطاعت کے دائرے میں نہیں آتا، ایک دن میں ڈیرھ سو مقدمات کی تفتیش جن ہی کر سکتا ہے جبکہ پولیس سٹیشن میں انسان ہی تعینات ہیں۔ یہی حال عدالتوں کا ہے۔ ججز روزانہ سو سے زائد مقدمات کی لسٹ کے ساتھ عدالت میں آتے ہیں، بعض عدالتوں میں یہ فہرست ڈیرھ سو سے بھی زائد ہوتی ہے۔ ان حالات میں فیصلے کی توقع تو دور کی بات ہے، بیشتر مقدمات میں تاریخ پر تاریخ ہی ملتی ہے اور اسی التوا سے عوامی بے چینی اور نظام پر عدم اعتماد جنم لیتا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے جو حل تجویز کیا وہ سادہ مگر مؤثر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تھانوں میں مساوی تعداد پوری کرنے کی بجائے تفتیشی افسران کی تقسیم جرائم کے تناسب سے ہو تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں یعنی وہ تھانے جہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے، وہاں تفتیشی عملہ زیادہ ہو جس کے لیے کم جرائم والے تھانوں سے اضافی تفتیشی عملہ نکال کر ان تھانوں میں تعینات کیا جائے جہاں زیادہ جرائم کی تفتیش درکار ہے تاکہ تفتیش کا عمل تیز اور بروقت ہو۔ انہوں نے بتایا کہ یہی اصول پراسیکیوشن دفاتر اور عدالتوں پر بھی لاگو کیا جا رہا ہے تاکہ غیر متوازن بوجھ کو ڈیجیٹل ڈیٹا بیس اور ادارہ جاتی تقسیم کے ذریعے توازن میں لایا جا سکے۔
ہمارے یہاں پولیس تفتیش کا ناقص معیار بھی ایک مستقل دردِ سر رہا ہے۔ قانونی سقم، ناقص شواہد اور درست سمت کے بغیر کی گئی تفتیش اکثر عدالت میں مقدمات کو ابتدا ہی میں کمزور کر دیتی تھی۔ اب اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے جس میں ہر درج شدہ ایف آئی آر فوری طور پر پراسیکیوشن کو بھجوائی جاتی ہے اور تفتیش کا رخ پراسیکیوٹر کی ہدایت کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ یوں اب تفتیش قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مکمل ہوتی ہے اور عدالت میں مقدمات مضبوط بنیاد پر پیش ہوتے ہیں۔
عام شہری کے لیے ایک اور خوش آئند قدم وہ ڈیجیٹل نظام ہے جو لاہور اور رحیم یار خان میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اب شہری اپنی ایف آئی آر کی نقل، تفتیش کی پیش رفت، عدالت کی اگلی تاریخ اور مقدمے کی تازہ صورتحال محض ایک کلک پر موبائل ایپ یا ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ سہولت ہے جس کا خواب پاکستانی عوام عشروں سے دیکھ رہے تھے۔
یہ سب تبدیلیاں اس بات کی علامت ہیں کہ پنجاب میں انصاف صرف فائلوں اور دلائل کی نذر ہونے کی بجائے ایک مؤثر، تیز تر اور ٹیکنالوجی پر مبنی راستے پر آ چکا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ریاستی مشینری جب شفاف انداز میں کام کرے، قانون سب کے لیے یکساں ہو اور انصاف صرف کتابوں میں نہیں بلکہ موبائل فون پر نظر آنے لگے تو پھر شہریوں اور ریاست کے درمیان عدم اعتماد کی دیوار گرنے لگتی ہے۔
یہ نظامِ انصاف کی نئی تعبیر ہے۔ اگر اسے دیانتداری، شفافیت اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں انصاف تاخیر نہیں بلکہ اعتماد کی علامت بنے گا۔