معیشت کی بنیاد صرف مالیاتی اصطلاحات یا اعداد و شمار پر نہیں بلکہ ان سرگرمیوں پر ہے جو سرمائے کو گردش میں لا کر زندگی کے مختلف شعبوں میں حرارت بھرتی ہیں۔ اگر ایک لاکھ روپے تجوری میں بند رہیں تو وہ محض کاغذ ہیں لیکن جب یہی رقم بازار میں استعمال ہوتی ہے تو کئی گھرانوں کا چولہا جلتا ہے، کئی ہاتھوں کو روزگار ملتا ہے اور کئی خواب حقیقت میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ یہی اصول ریئل سٹیٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ شعبہ بظاہر جامد دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ سرمایہ کاری کا سب سے متحرک ذریعہ ہے۔ اندازہ لگائیں کہ زمین اپنی جگہ قائم رہتی ہے مگر ملکیت کی تبدیلی سے سرمایہ گردش میں آ جاتا ہے اور روزگار سے لے کر صنعتی پہیے تک سب متحرک ہو جاتے ہیں۔
وفاقی بجٹ 2025-26 اس پہلو سے ایک مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بن کر سامنے آیا ہے، جس میں حکومت نے ریئل سٹیٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کو خصوصی مراعات دے کر معیشت کی بحالی کی جانب عملی قدم اٹھایا ہے۔ طویل عرصے بعد ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں جائیداد کے خریدار، بیچنے والے، سرمایہ کار اور ترقیاتی ادارے سبھی کو یکساں ریلیف دیا گیا ہے۔ سب سے بڑی خوشخبری ودہولڈنگ ٹیکس میں نمایاں کمی ہے۔ پہلی سلیب میں شرح 4 فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد، دوسری میں 3.5 فیصد سے 2 فیصد اور تیسری میں 3 فیصد سے گھٹا کر 1.5 فیصد کر دی گئی ہے۔ یہ اقدام یقینی طور پر سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ کرے گا۔ اس کے ساتھ کمرشل جائیداد، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر عائد 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ ایک غیر معمولی قدم ہے جس سے تعمیراتی شعبے میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد میں اسٹامپ ڈیوٹی کو 4 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کرنا حکومت کی جانب سے دارالحکومت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ایک واضح اشارہ ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ یہی فیصلہ لاہور کے لیے بھی کیا جائے گا کیونکہ لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ پورے پنجاب کا معاشی اور سماجی مرکز ہے۔ اسی طرح دس مرلہ تک کے گھروں اور دو ہزار مربع فٹ کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متوسط طبقے کے لیے ایک نمایاں ریلیف ہے جبکہ مورگیج فنانسنگ کے فروغ کا حکومتی اعلان مستقبل میں تعمیراتی ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔
بجٹ میں کارپوریٹ سیکٹر کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ سالانہ 20 کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی رکھنے والے اداروں کے لیے سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کی کمی صرف علامتی اقدام نہیں بلکہ کاروباری اعتماد کی بحالی کی طرف ایک عملی قدم ہے۔ یہ ان اداروں کے لیے نئی سانس ثابت ہوگا جو کورونا، عالمی مہنگائی اور ملکی مالی دباؤ کے باعث مشکلات کا شکار تھے۔ عالمی سطح پر ریئل سٹیٹ کو ہمیشہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا گیا ہے۔
امریکہ کی جی ڈی پی کا 13 فیصد، چین کا 11 فیصد اور بھارت کا 8 فیصد ریئل سٹیٹ سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں یہ شرح تاحال صرف 2.5 سے 3 فیصد ہے لیکن اگر پالیسی میں تسلسل برقرار رکھا جائے تو اگلے پانچ سال میں یہ حصہ دوگنا ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال وہ خاموش مگر انقلابی قدم ہے جس کے تحت سٹیٹ بینک کے ذریعے ترسیلات بھیجنے والے 15 نمایاں اوورسیز پاکستانیوں کو ہر سال 14 اگست کو سول ایوارڈ دئیے جائیں گے۔ یہ نہ صرف ان کے کردار کا اعتراف ہوگا بلکہ ان اربوں ڈالر کی قدر بھی ہوگی جو وہ ریئل سٹیٹ سمیت دیگر شعبہ جات میں لگا کر معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔
پاکستان کا ریئل سٹیٹ سیکٹر محض عمارتیں کھڑی نہیں کرتا بلکہ پچاس سے زائد صنعتوں کو فعال رکھتا ہے، لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے اور متوسط طبقے کو سرمایہ کاری کے نئے مواقع مہیا کرتا ہے۔ اس وقت جب کہ ملکی معیشت غیر یقینی مالی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے ایسے میں بجٹ اقدامات کسی نئی صبح کی امید دکھا رہے ہیں۔ البتہ ان مراعات کے ثمرات تب ہی حاصل ہوں گے جب حکومت ان پر بروقت عمل درآمد کرے، پالیسیوں میں استحکام لائے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد مستقل بنیادوں پر بحال رکھے۔
یہ بجٹ درحقیقت ایک معاشی پیغام ہے، اگر سمت درست ہو، نیت شفاف ہو اور حکمت عملی مستحکم ہو تو ریئل سٹیٹ جیسے شعبے پاکستان کو ترقی، خود کفالت اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم معاشی نقشہ از سر نو ترتیب دیں، ایسا نقشہ جس کی بنیادیں مضبوط ہوں، دیواریں بلند ہوں اور چھت سب کو سایہ دے تاکہ نہ صرف ملکی خزانہ محفوظ ہو، بلکہ ہر پاکستانی کی سرمایہ کاری بھی تحفظ کے دائرے میں رہے۔