جب قومیں تہذیب، ترقی اور نظم و نسق کے سفر پر گامزن ہوتی ہیں تو آزادیِ اظہار کو قانونی، اخلاقی اور سماجی دائرے میں رکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے 29 مئی 2025 سے ایک جامع میڈیا ریگولیشن قانون نافذ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں میڈیا کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ یہ قانون نہ صرف سوشل میڈیا صارفین بلکہ آن لائن کاروبار، بلاگرز، یوٹیوبرز اور اداروں کو بھی ایک منظم قانونی فریم ورک کے اندر لے آیا ہے۔
اس قانون میں بیس سے زائد خلاف ورزیوں کی واضح فہرست موجود ہے، جن میں مذہبی مقدسات کی توہین، قومی اداروں کے خلاف زہر افشانی، جھوٹے بیانیے، فحش مواد، خواتین و بچوں کے خلاف مواد اور سوسائٹی کو تقسیم کرنے سمیت دیگر جرائم شامل ہیں۔ ان خلاف ورزیوں پر 10 ہزار سے 10 لاکھ درہم تک جرمانہ، لائسنس کی منسوخی، کاروبار کی بندش اور پلیٹ فارمز پر پابندیوں جیسے سخت اقدامات رکھے گئے ہیں۔ یہ محض قانون نہیں بلکہ ریاستی عزم کا اظہار ہے کہ ڈیجیٹل سپیس کو بے مہار چھوڑ دینا اب مزید ممکن نہیں ہے۔
اگر ہم اس قانون کے پس منظر میں پاکستان میں سوشل میڈیا کی صورت حال کا جائزہ لیں تو انتہائی تکلیف دہ منظر ہمارے سامنے ہے۔ یہاں سوشل میڈیا آزادی نہیں، بد نظمی اور بدنیتی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کوئی بھی فرد، کسی بھی ادارے، مذہب، یا شخصیت کے خلاف جو چاہے کہہ دیتا ہے۔ ہزار دلائل کے باوجود سچ تو یہی ہے کہ فیس بک، یوٹیوب، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور ٹک ٹاک پر جھوٹ، فحاشی، سیاسی زہر اور فرقہ وارانہ مواد بغیر کسی روک ٹوک کے عام ہے۔ عدلیہ پر حملے، فوج کے خلاف مہمات اور مذہبی حساسیت سے بھرے بیانات روز کا معمول بن چکے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سوشل میڈیا سماجی رابطے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ سیاسی پروپیگنڈے، نظریاتی تقسیم اور ریٹنگ و ریونیو کی دوڑ میں بگڑے ہوئے رجحانات کا میدان بن چکا ہے۔ انفلوئنسرز فالوورز اور اشتہارات کے لالچ میں حدود پار کر رہے ہیں۔ وفاقی ادارے، خاص طور پر ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اکثر بے بس، غیر مؤثر یا سیاسی دباؤ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ جو کام امارات نے محض ایک قانون سے کیا، پاکستان میں وہ اخلاقی اقدار سے ممکن ہو سکا اور نہ ہی سماجی بیداری سے۔
یہ سوال اب قومی سطح پر اٹھنا چاہیے کہ کیا پاکستان بھی عرب امارات کی طرح ڈیجیٹل نظم و ضبط اپنا سکتا ہے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں اظہارِ رائے کا حق آئینی ہے اور یہ آئینی حق ہمیشہ رہنا چاہیے لیکن اس کی آڑ میں فتنہ، انتشار اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی کو جواز نہیں دیا جا سکتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک ایسی پالیسی تشکیل دے جو نہ صرف سوشل میڈیا کو منظم کرے بلکہ اس کی سمت درست کرے۔ اس کا فائدہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ خود میڈیا کو بھی ہے کیونکہ آج اگر صحافت اپنی کریڈیبلٹی کھو رہی ہے تو اس کی وجہ سوشل میڈیا پر صحافت کے نام پر بولے گئے جھوٹ اور خبر کے نام پر پھیلایا گیا پراپیگنڈا بھی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ڈیجیٹل انفلوئنسرز اور آن لائن مواد تخلیق کرنے والوں کے لیے لائسنسنگ کا نظام متعارف کرایا جائے۔ پلیٹ فارمز پر مانیٹرنگ کے خودکار، مؤثر اور شفاف طریقے اختیار کیے جائیں۔ ڈیجیٹل خواندگی کو سکول و کالج کے نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل جان سکے کہ آن لائن اظہار کے بھی کچھ اخلاقی اور قانونی اصول ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان میں صرف قانون بنانا کافی نہیں۔ ریاستی اداروں میں سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد عملداری، عدلیہ اور تحقیقاتی اداروں کی خودمختاری اور عوام کی تربیت ہی وہ عناصر ہیں جو کسی قانون کو مؤثر بناتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا ماڈل ہمیں بتاتا ہے کہ ڈیجیٹل نظم محض سزاؤں سے نہیں بلکہ ایک ریاست کے سنجیدہ طرزِ حکمرانی، مربوط ادارہ جاتی عمل اور قومی سطح کے اتفاق رائے سے قائم ہوتا ہے۔ پاکستان اگر واقعی ڈیجیٹل دنیا کو ترقی، تہذیب اور قومی مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے سچ، اخلاق اور قانون کو سوشل میڈیا پر لاگو کرنا ہوگا۔
جہاں قانون سو جائے، وہاں معاشرے جاگنے کے بجائے گمراہ ہوتے ہیں۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو قومی طاقت بنانا چاہتے ہیں یا اجتماعی زوال کا ہتھیار؟ سوشل میڈیا انفلوئنسر کو "قومی دھارے" میں شامل کرنا چاہیے۔ اخلاقی تربیت، سماجی ذمہ داری کا احساس، قوانین کی تشکیل اور ان کی پابندی کے ساتھ ساتھ لائسنسنگ کے علاوہ شرائط و ضوابط پر ہوتا اترنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو قومی اداروں اور تقریبات میں اسی طرح شامل کیا جانا بھی ضروری ہے جیسے نیشنل میڈیا کو شامل کیا جاتا ہے۔