Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Rauf Klasra
  4. Lahore Ka Gora

Lahore Ka Gora

اس اتوار کو لاہور گیا تو سیدھا انار کلی بازار چلا گیا تاکہ پرانی کتابوں میں کچھ وقت گزاریں۔ وہاں طاہر اسلم گورا صاحب کی کتاب پر نظر پڑی۔ فوراََ خرید لی۔ یہ ان کے افسانوں کی کتاب 1986 میں چھپی تھی۔ وہ اس وقت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے۔

میری طاہر اسلم گورا صاحب سے زندگی میں ایک ہی ملاقات 1996 میں ہوئی تھی جو ان کے گورا پبلشرز دفتر لاہور میں ہوئی تھی۔ یقیناََ انہیں یاد نہیں ہوگا کیونکہ ان سے روز درجنوں لوگ ملتے ہوں گے۔

اس وقت میں ملتان سے لاہور نیا نیا آیا تھا اور اپنے قدم جمانے میں لگا ہوا تھا اور قدم جم نہیں رہے تھے۔ گورا پبلشر کا ان دنوں بڑا نام تھا۔ بڑا چرچا تھا۔ ان کا نام مجھے ٹیگور کے ناول "گورا" کی یاد دلاتا تھا۔ انہوں نے لاہور پبلشنگ کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ ہر ادیب اور شاعر کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ گورا پبلشرز سے چھپے۔ سنا تھا وہ ادیبوں کی عزت بھی کرتے تھے اور پیسے بھی اچھے دیتے تھے کیونکہ وہ خود ادیب تھے۔

لاہور آنے سے پہلے ملتان میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 1995 میں بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف چند فوجی افسروں کی ناکام بغاوت پر ایک کتاب چھاپی تھی۔ کتاب کیا تھی، بس ایک کتابچہ کہہ لیں۔ دراصل اس اہم کتاب (سب کو اپنی کتاب اہم لگتی ہے) کا بینادی تھیم یہ تھا کہ اس وقت جو بڑے بڑے انگریزی اخبارات، جرائد اور میگزین نے اس فوجی بغاوت پر اپنے ادارتی صحفات پر بڑے رائٹرز کے کالمز/تحریریں چھاپی تھیں انہیں ہم دوستوں نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔

لاہور آیا تو خیال آیا ہم بھی قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ یہ کتاب اٹھا کر گورا پبلشرز گیا وہاں ان سے ملا اور یہ کتاب دکھائی کہ اگر وہ اسے دوبارہ چھاپ سکتے ہیں کیونکہ ملتان میں ہم نے اپنے وسائل سے چھاپی تھی اور اس کا مارکیٹنگ سکوپ اتنا بڑا نہیں تھا۔

گورا صاحب نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے دیکھا۔ اسے کچھ دیر تک پڑھتے رہے۔ ہم دوستوں کے کام کی تعریف کی۔ چائے منگوائی۔ بولے کتاب اور تھیم تو بہت اچھا ہے۔ لیکن ایک مسلہ ہے۔ یہ پہلے چھپ چکی ہے۔ میں چھپی ہوئی کتابیں نہیں چھاپتا۔ اگر آپ اورینجل مواد دیتے تو یہ کتاب بہت بک جاتی۔ لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ پروڈکشن معیار پر بات کی۔ میری حوصلہ افزائی کی۔ جس احترام اور عزت ساتھ ایک اجنبی نوجوان سے وہ پیش آئے وہ مجھے ہمیشہ یاد رہا۔ کتاب نہ چھپ سکی لیکن انہوں نے جس طرح مجھے وقت دیا، چائے پلائی وہ سب یاد رہا۔ آپ کی کسی کو دی گئی عزت کبھی نہیں بھولتی خصوصا جب آپ کا بڑا نام ہو، پورے شہر میں آپ کی دھوم ہو۔

پھر بڑے عرصے بعد سنا کہ گورا صاحب مشکلات کا شکار ہوئے اور بیرون ملک چلے گئے۔ اب وہیں ہوتے ہیں۔ ان کی انار کلی بازار میں یہ کتاب نظر آئی تو ان کی دی گئی عزت یاد آئی۔ آج شاید ہی کسی کو گورا پبلشرز یاد ہو لیکن 1990 کی دہائی میں یہ ایک نام تھا۔ ایک برانڈ سمجھا جاتا تھا۔ وقت کیسے بدل جاتا ہے۔ آج کچھ اور برانڈ ہیں۔ کل کو کوئی اور ہوں گے۔

مجید امجد یاد آئے

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہیں گزروں گا کون دیکھے گا

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.