Friday, 06 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Arsh Siddiqui, Anwar Ahmed Se Tahir Tonsvi Tak

Arsh Siddiqui, Anwar Ahmed Se Tahir Tonsvi Tak

ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے خاکوں کی کتاب "یادگار زمانہ ہیں جو لوگ" پڑھی تھی تو انہیں ایک میسج کیا تھا کہ سر جی شکر ہے میں آپ کے دوستوں میں شمار نہیں ہوتا۔ میں اس کتاب کا بڑا عاشق ہوں بلکہ جہلم کےگگن اور امر شاہد نے بڑی شان وشوکت ساتھ اسے دوبارہ چھاپا۔

مجھے علم نہ تھا کہ ڈاکٹر انوار احمد نے خاکوں کی ایک اور کتاب بھی مربت کر رکھی ہے جس کا نام "دس یادگار شخصی خاکے" ہے جس میں کلاسک خاکے شامل ہیں۔ کل اسلام آباد مسٹر بکس ناول نگار قرت العین حیدر کے ناول "چاندنی بیگم" کی تلاش میں گیا تو یہ کتاب نظر آئی۔ فورا خریدی۔

انوار احمد نے اپنا لکھا ایک خاکہ بھی اس میں شامل کیا ہے جو ملتان کی ایک بڑی شخصیت عرش صدیقی صاحب پر ہے۔ میں نے عرش صاحب کو اپنے ملتان یونیورسٹی کے دنوں میں کئی بار آتے جاتے دیکھا ہوا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا انہیں کبھی مسکراتا دیکھا ہو۔ چہرے پر ہمیشہ سنجیدگی ہی دیکھی لیکن ایک خوبصورت اور رعب داب والی پرسنلیٹی جس کے رعب میں آپ ویسے دیکھ کر آ جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں نفاست اور متانت دور سے نظر آتی تھی۔

انوار احمد صاحب کی ایک خوبی ہے وہ لکھتے وقت کم ہی کسی کا لحاظ رکھتے ہیں اور بولنے وقت بھی اگلے ساتھ رعایت نہیں کرتے لیکن سامنے بیٹھے بندے کو وہ فقرے ان کے منہ سے سن کر اتنے نہیں چھبتے جتنے پڑھ کر اندر تک زخمی کر دیتے ہیں۔ وہ کڑوی بات بھی روایتی ملتانی انداز میں قہہقہ یا ہنس کر کہتے ہیں کہ اگلے کو کچھ دیر سمجھ نہیں آتی کہ ان ساتھ کیا ہوا ہے کیونکہ چہرے کے خوشگوار تاثرات اور تلخی میں ڈوبے لفظ ایک دوسرے سے میچ نہیں کررہے ہوتے۔

خیر عرش صدیقی کے اس خاکے کو بھی میں پڑھتے ہوئے اس کشمکش کا شکار رہا۔ خاکہ اپنی جگہ ایک نوحہ زیادہ ہے جس میں دکھ ہے، درد ہے اور وچھوڑا ہے۔ کچھ انوارصاحب کے پچھتاوے ہیں تو کچھ عرش صدیقی کے۔

ایک جگہ انوار صاحب لکھتے ہیں کہ "عرش صدیقی کو سرائیکی کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے۔ ایک دفعہ عمر کمال سے ایک محفل میں بڑا گرم جوش مکالمہ ہوا جس میں عرش صاحب نے کہا میں گزشتہ تیس برسوں سے ملتان میں پڑھا رہا ہوں۔ میرے بچے ملتان میں پیدا ہوئے۔ یہیں پلے بڑھے۔ میرے دوستوں میں ارشد ملتانی، اے بی اشرف، مبارک مجوکہ، ظہور شیخ، طاہر تونسوی، اصغر ندیم سید اور انوار احمد جیسے سرائیکی ہیں۔ آپ مجھے سرائیکی یا سرائیکی دوست کیوں نہیں مانتے؟

عمر کمال خان نے کہا کیونکہ آپ آنکھوں میں کاجل نہیں لگاتے، آپ سوانجھنا نہیں کھاتے اور آپ کی والدہ نے آپ کے سر کو گولائی کے رخ پر بٹھایا۔ اس لیے آپ ہم میں سے نہیں"۔ 

تاہم جو دلچسپ واقعہ ہے وہ طاہر تونسوی مرحوم کا ہے۔

"ہم دونوں عرش صدیقی کی کار میں تھے۔ میں نے طاہر تونسوی کو چھیڑا کہ آج کل بہاولپور کی ایک خاتون سے تمہاری شادی کے عزائم ہر چینل سے چل رہے ہیں۔ طاہر کے جواب دینے سے قبل عرش صاحب نے نہایت اٹل محبت سے کہا طاہر کو اب شادی نہیں کرنی چاہیے۔

طاہر نے رونی صورت بنا کر پوچھا وہ کیوں؟

عرش صاحب نے بڑی محبت اور ہمدردی سے کہا "پہلی بیوی سے علیحدگی کو بڑا عرصہ ہوگیا۔ اب تمہیں وظیفہ زوجیت بجا لانے میں مشق نہیں رہی ہوگی۔

اب طاہر کی جان عذاب میں تھی کہ اگر کہے پریکٹس برقرار ہے تو عرش صاحب یقینا اسے بدکاری کی بیناد پر گاڑی سے اتاردیں گے جب کہ خاموش رہنے کی صورت وہ اپنی بے توفیقی پر مزید مہر ثبت کرائے"۔۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.