Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Deemak

Deemak

دل حد درجہ آزردہ ہے۔ ہفتہ، دس دن بعد، کاروباری مصروفیت کی بدولت ملک سے باہر سفر کرتا رہتا ہوں۔ ہمسایہ یا دور پار کے ممالک بھی ترقی کی شاہراہ پر پوری توانائی سے بھاگ رہے ہیں۔ مگر اپنے ملک کے حالات دیکھتا ہوں تو یقین فرمائیے، دل بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ منفی رویوں کے حامل چند افراد ملک کے جلد از جلد حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔

حد درجہ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ ملک کی سالمیت سے لے کر معاشی صورت، اس قدر بگاڑ دی گئی ہے کہ شایداب کوئی بھی اسے واپس ترقی کی ڈگر پر نہیں لا سکتا۔ دبئی میں قیام پذیر تھا تو ایک پاکستانی سیاست دان سے طویل ملاقات رہی۔ بہت بڑے کاروباری شخص ہیں۔ پوری دنیا میں وسیع بزنس ایمپائر کے مالک ہیں تاہم آجکل سیاست سے دور ہو گئے ہیں۔ جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا اس میں ایک فرنچ کافی شاپ ہے۔

شام کو تشریف لائے تو وہاں سیاست پر تفصیلی باتیں ہوتی رہیں۔ خیبر پختونخوا کے حالات سے خاصے پریشان تھے۔ بتانے لگے کہ عملی طور پر خیبر پختونخوا کا بڑا حصہ طالبان کے زیراثر ہے یہ لوگ جا بجا ذاتی چیک پوسٹیں لگا کر مقامی افراد سے پیسے وصول کر رہے ہیں۔ خیر، یہ بات تو پہلے بھی میرے علم میں تھی۔ مگر گفتگو کا اگلا حصہ بہت زیادہ پریشان کن تھا۔ چند ہفتے پہلے پاکستان کے ایک سابقہ قبائلی علاقے میں نجی جرگہ ہوا تھا۔ جرگوں میں معززین علاقہ عوامی سطح کے اہم اورغیر اہم معاملات کو بات چیت سے سلجھاتے ہیں اور معاملہ حل ہونے کے بعد دعائے خیر کی جاتی ہے۔

بہرحال حال ہی میں ہونے والے ایک جرگے کو حکومتی سطح پر روکنے کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا، خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے تدبر سے کام لیتے ہوئے معاملے کو سلجھایا۔ کافی شاپ میں براجمان، سیاست دان مجھے یہ کہنے لگے کہ اگر صوبائی حکومت کے سربراہ کو ابتدا میں ہی اعتماد میں لے لیا جاتا تو کوئی ردعمل یا شکوے شکایت ہی پیدا نہ ہوتے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ سادہ سی بات ہے۔ یعنی زمینی حقائق کا ادراک نہ ہونا۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور عوام کا آپسی تعلق کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور یہ صورت حال اچھی نہیں ہے۔ ملک دشمن قوتیں، اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں بلکہ اٹھا رہی ہیں۔ دانائی کا عنصر مجھے سیاسی اور غیر سیاسی فریقین دونوں میں نظر نہیں آ رہا۔ عوام میں پذیرائی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو بے توقیر کر دیاگیا ہے۔

تحریک انصاف کو ستر کی دہائی کی عوامی لیگ بنانے کا عمل شروع ہے۔ وہ سیاست دان یہ بھی بتانے لگے کہ وہ سیاسی قوتیں جو مونہہ میں دہی جما کر خاموش بیٹھی ہیں۔ ان کی باری بھی آنے والی ہے اور پھر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ دیواروں کے ساتھ لگ کر دھاڑیں مار مار کر روئیں گے اور عوام ان سے بھی لاتعلق رہیں گے۔ ذاتی طور پر دعا ہے کہ متحارب فریقین کسی طرح گفت و شنید کی طرف آ جائیں تاکہ ملک کسی بڑے سانحہ سے بچ جائے۔ مگر اس کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ اس گفتگو کے بعد، میں کئی گھنٹے سوچتا رہا کہ جو بات، عام فہم رکھنے والے لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے۔ وہ پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی فہم میں کیوں نہیں ہے۔ یقین مانیے۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔

خیر لاہور آ کر تین دن پہلے، ایک تھنک ٹینک کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ کوئی بیس کے قریب، ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے، کامیاب افراد موجود تھے۔ ہر شخص اپنی جگہ پریشان تھا۔ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔

ملکی حالات کیسے بہتر ہوں گے۔ المناک حقیقت یہ بھی تھی کہ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ ایک نجی یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر کہنے لگے، کہ ہم ذاکر نائک کو ملک میں سرکاری مہمان بنا کر شادیانے بجا رہے ہیں اور ہمسایہ ملک، ایلن مسک، بل گیٹس اور دنیا کی کامیاب ترین کاروباری شخصیات کو اپنے ملک میں مدعو کر رہا ہے۔ وہاں"مصنوعی ذہانت" A. 1 پر بات ہو رہی ہے اور ہمارے ہاں چھوٹی بچیوں کو تقریب میں شیلڈ پیش کرنے کے معاملہ کو الجھانے کی کوشش ہوئی۔ بہرحال اس معاملہ میں محترم زمرد خان جو کہ آج کے دور کے ایدھی ہیں۔

انھوں نے بڑے تحمل سے معاملے کو رفع دفع کر دیا اور اسے کوئی ایشو نہیں بننے دیا۔ تھنک ٹینک میں کئی ریٹائر فوجی افسر بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک سینئر افسرجنھوں نے کے پی میں بھی فرائض ادا کیے تھے۔ انھوں نے پاک فوج کے نوجوان افسروں کی بہادری اور شجاعت کا واقعہ سنایا۔ ان کے دور میں دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے اکیس بائیس برس کے ایک نو عمر سیکنڈ لیفٹیننٹ ضد کرکے فوجی دستے میں شامل ہوئے جو دہشت گردوں سے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ یقین فرمائیے۔ یہ واقعہ سن کر ہم سارے آبدیدہ ہو گئے۔

پاکستان کی فوج اور دیگر ادارے جو عظیم قربانیاں دے رہے ہیں اور جس عزم کے ساتھ دہشت گردوں کی سرکوبی کررہے ہیں۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ قوم پر احسان گراں ہے کہ ہمارے سپوت، خوارج کو نیست و نابود کر رہے ہیں۔ مگر یہاں ایک نازک نکتہ اور بھی ہے۔ چند سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں، دفاعی اداروں کی قربانیوں کو بھی وہ تکریم نہیں دے رہے جو ان کا حق ہے۔ یہ ہم پر فرض ہے کہ ان شہادتوں کو رائیگاں نہ جانے دیا جائے۔

یہ دو واقعات کیا ظاہر کرتے ہیں۔ چند بااثر قوتیں ریاستی اداروں اور عوامی طاقت کی حامل سیاسی جماعتوں کے درمیان دراڑکوگہرے سے گہرا کرنا چاہتی ہیں۔ ادھر موجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی قیادت کو بخوبی معلوم ہے کہ ان کا مینڈیٹ متنازعہ ہے۔ انھیں یہ بھی ڈر ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان سنجیدہ مذاکرات شروع نہ ہو جائیں اور افہام و تفہیم کا کوئی راستہ نہ نکل آئے۔ لہٰذا اتحادی حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ان کے درمیان مذاکرات نہ ہو پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پورے ملک میں بدحالی اور انتشارہے۔ مگر حکومت آج بھی اپنی ڈگر پرچل رہی ہے، انھیں اپنی سیاست کے خاتمے کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔

حالیہ آئینی ترمیم میں جس طرح مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے اکابرین بے نقاب ہوئے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس اہلیت ہے نہ ذہانت موجودہے۔ ادھر حالیہ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے مبینہ طور پر تحریک انصاف اور جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ کو مختلف قسم کے لالچ دیے جانے کی افواہیں عام ہیں۔ سنجیدہ طرز عمل یہ ہے کہ مقتدرہ اور بانی پی ٹی آئی مذاکرات کی طرف آئیں اورانتشاراور گھیراؤ جلاؤ کے بجائے ملک کو سہارا دیں۔ اگر یہ نہ ہو پایا تو سیاست میں موجود دیمک زدہ رویے ملک کومزید کھوکھلا کر دیں گے اور پھر ہوا کے ایک تھپیڑے سے سب کچھ ختم ہو جائے گا!