Friday, 19 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Trump Se Field Marshal Asim Munir Ki Mumkina Teesri Mulaqat

Trump Se Field Marshal Asim Munir Ki Mumkina Teesri Mulaqat

سوشل میڈیا سے "علم" کشید کرتے افراد اس میڈیا سے بہت نفرت کرتے ہیں جو میری نسل کے لئے بہت دھانسو، معتبر اور قابل تقلید شمار ہوتا تھا۔ ڈونلڈٹرمپ جیسے عالمی اثر رکھنے والے سیاستدان اس میڈیا کو "فیک (جعلی) خبروں " کی فیکٹریاں قرار دیتے ہیں۔ الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ چند مخصوص مفادات کی تسکین کے لئے پرانی وضع کا میڈیا "خبریں " بیان نہیں بلکہ انہیں ایک ایجنڈا کے تحت "ایجاد" کرتا ہے۔

پاکستانی صحافت کو ساری عمر نذر کردینے کے بعد میں یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مجبور ہوں کہ سرکار کے دئیے ڈیکلریشن اور اس کی جانب سے فراہم کردہ اشتہاروں پر انحصار نے ہمارے ہاں آزادی صحافت کا رحجان پنپنے نہیں دیا۔ تمام تر محدودات کے باوجود مگر مارشل لائوں کے طویل ادوار میں بھی صحافی کسی نہ کسی طرح حقائق کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں کالم نویسی اس ضمن میں بہت کام آئی۔ اشاروں، کنایوں اور استعاروں میں بہت کچھ بیان کردیا جاتا۔

اپنے صحافتی کیرئیر کا زیادہ حصہ میں نے انگریزی اخبارات کے لئے رپورٹنگ اور کالم لکھنے کی نذر کیا ہے۔ ان اخبارات کی رسائی پڑھے لکھے طبقات تک ہی محدود ہوتی ہے۔ مارشل لائوں کے بدترین ادوار میں بھی لہٰذا اردو اخبارات کے مقابلے میں انگریزی اخبارات کے ساتھ نسبتاََ نرم رویہ اختیار کیا گیا۔ حکمرانوں کی انگریزی اخبارات کے ساتھ اختیار کردہ نرمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے صفحات میں نظر آتی "آزادی"امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ چکمہ دینے میں آسانی فراہم کرتی کہ مارشل لاء کے باوجود نام نہاد "آزادی اظہار" کا احترام ہورہا ہے۔ مبینہ احترام کی حوصلہ افزائی کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پاکستان میں انسانی حقوق کی محافظ کہلاتی تنظیموں کو خیراتی مدد بھی فراہم کرتے۔

"آزادی اظہار" اور اس کا پاکستان جیسے ملکوں میں حقیقی اطلاق مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ آغاز میں نے اس اطلاع سے کیا تھا کہ میری نسل کے صحافیوں کے لئے کچھ صحافتی ادارے بہت دھانسو، معتبر اور قابل تقلید شمار ہوتے تھے۔ جن اداروں کا ذکر ہے اس میں رائٹر نام کی خبررساں ایجنسی سرفہرست رہی ہے۔ اس کا بانی آذربائیجان میں تیل کی دریافت کے بعد اسے بازار میں لانے کے دھندے میں ملوث رہا تھا۔ تیل کی کمائی سے بے پناہ دولت کمانے کے بعد اس نے "تجارتی خبریں " دینے کی خاطر یہ ایجنسی قائم کی جو بتدریج عالمی سطح پر ہر ملک کے بارے میں مستند خبریں دینے کا معتبر ذریعہ قرار پائی۔ 1975ء میں صحافت کو کل وقتی دھندے کے طورپر اختیار کرنے کے بعد میں دن میں کم ازکم ایک گھنٹہ اس خبررساں ایجنسی کی دی کسی اہم خبر کو بارہا پڑھ کر یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ خبر کو کس انداز میں "مستند" اورروانی سے پڑھنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

بدھ کی صبح مگراپنا کالم لکھ کر دفتر بھجوادینے کے بعد سوشل میڈیا پر سرسری نظر ڈالی تو وہاں رائٹرنیوز ایجنسی میں شائع ہوئی ایک "خبر" گردش کررہی تھی۔ مذکورہ خبر میں دعویٰ ہوا کہ آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان کے فیلڈمارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ایک ملاقات متوقع ہے۔ گزشتہ 6مہینوں میں ان کے درمیان یہ تیسری ملاقات ہوگی۔ ممکنہ ملاقات کے دوران امریکی صدر پاکستان کے فیلڈ مارشل پر زور دے گا کہ وہ جلد از جلد اپنی افواج کے دستے غزہ میں امن یقینی بنانے کے لئے ٹرمپ کی تجویز کردہ بین الاقوامی فوج کا حصہ بنیں۔

جس ملاقات کا امکان ہے اس کا انکشاف رائٹرکے لئے مذکورہ کہانی لکھنے والوں سے ایک لکھاری کے ساتھ ایسے فرد نے کیا جوبقول رپورٹر "جنرل (منیر) کی معاشی سفارت کاری" میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور شخص نے بھی ممکنہ ملاقات کے امکان کو رد نہیں کیا۔ رائٹر نے مگر ان صاحب کا اشارتاََ ذکر کرنا بھی لازمی نہیں سمجھا۔ "معاشی سفارت کاری" میں "کلیدی کردار" کے حامل فرد سے "خبر" حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی وزارتِ اطلاعات اور وزارت خارجہ سے ممکنہ ملاقات کی تصدیق فراہم کرنے کی درخواست ہوئی۔ دونوں وزارتوں نے تبصرہ آرائی سے گریز کیا۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس سے بھی اس ضمن میں کوئی جواب نہ آیا۔

وزارتِ اطلاعات و وزارتِ خارجہ سے "معاشی سفارت کاری میں کلیدی کردار کے حامل" گمنام شخص کی دی خبر کی تصدیق میسر نہ ہونے کے بعد میں دو ٹکے کا رپورٹر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے آئندہ چند ہفتوں میں ملاقات کی خبر دینے سے پہلے سو بار سوچتا۔ رائٹر مگر بڑاجانور ہے۔ اس کی مرضی۔ انڈا دے یا بچہ۔ ممکنہ ملاقات کو تقریباََ یقینی تصور کرتے ہوئے اس نے پاکستانی امور پر تبصرہ آرائی کرنے والے "ماہرین" سے رابطے شروع کردئیے۔ "ماہرین" میں سب سے نمایاں مائیکل کوگل مین تھا۔ یہ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کا ملازم ہے۔ اپریل 2022ء سے قائم ہوئے پاکستانی حکومتی بندوبست سے خارکھاتا ہے اور بسااوقات سوشل میڈیا کے ایکس پیغامات پر تحریک انصاف کے جیالے کارکن کی طرح تبصرہ آرائی میں مصروف رہتا ہے۔ میں نے اکثر اس کی پاکستان کے بارے میں جہالت کی بنیاد پر پھیلائے تصورات کو حقیقی تجربے کی بنیاد پر جھٹلانے کی کوشش کی۔ مجھے جواب دینے کے بجائے آزادی اظہار" کے علمبردار ملک سے تعلق رکھنے والے اس "دانشور" نے مجھے بلاک کردیا۔

مائیکل کوگل مین کو کامل یقین تھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ہوئی ملاقات کے دوران ٹرمپ اس امر پر زور دے گا کہ پاکستان جلد از جلد غزہ کے لئے تجویز کردہ امن فورس کا حصہ بن جائے۔ مذکورہ رائے کے اظہار کے بعد اس نے یہ بڑھک بھی لگادی کہ پاکستان (غالباََ اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے) ٹرمپ کو ناراض کرنے کی استطاعت نہیں ر کھتا۔ رائٹر نے جس انداز میں "خبر" لکھی بنیادی طورپر یہ پیغام دے رہی تھی کہ پاکستان کی رواں برس کے مئی سے بارہا مداح سرائی کے بعد ٹرمپ اب پاکستان سے غزہ میں اس کی خواہش کے مطابق کردار ادا کرنے کے لئے دبائو بڑھائے گا۔ انگریزی میں ایک لفظ ا ستعمال ہوتا ہے Back Time- Pay سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کے آپ پر کئے احسانات کا بدلہ اتارنے کا وقت۔ ممکنہ ملاقات کو اسی تناظر میں پیش کیا گیا اور توقع یہ باندھی گئی کہ پاکستان کی مسلسل مدح سرائی کے بعد اب ٹرمپ ہم سے غزہ میں اپنی ترجیح کے مطابق کام لینا چاہے گا۔ ہم نے انکار کردیا تو وہ ناراض ہوجائے گا۔

پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کو محض غزہ کے تناظر میں رکھ کر دیکھنا مجھ جاہل کو بہت بچگانہ لگا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی جو تعریف کی تھی اس کا غزہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہماری تعریف کی وجہ داعش کے اس دہشت گرد کی ہمارے امن وامان نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتاری تھی جو امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے دوران کابل ایئرپورٹ پر ایک ہولناک دھماکے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس دھماکے کے بعد وہ افغانستان سے فرار ہوکر شام چلا گیا اور وہاں سے دیگر دہشت پسندوں کے ہمراہ ماسکو پہنچ کر ایک اور ہولناک دہشت گرد واقعہ کا مرتکب ہوا۔

چین کے ساتھ تجارتی رقابت کے انتہائی مراحل کے دوران ٹرمپ کو ان معدنیات کی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا ہے جو ڈیجیٹل دور کو جدید ترین بنانے والی چپس کے لئے درکار ہیں۔ پاکستان بھی ایسی معدنیات سے مالا مال بیان کیا جاتا ہے اور ان کی تلاش کے لئے خطیر امریکی سرمایہ کاری کی توقع باندھی جاری ہے۔ غزہ میں امن کی بحالی پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں کلیدی اہمیت نہیں رکھتی۔ اسرائیل کو فائربندی کے لئے مجبور کرنے کے بعد ٹرمپ نے جو امن منصوبہ بنایا ہے اس پر عملدرآمد کے لئے محض پاکستان کے فوجی دستے ہی درکار نہیں ہیں۔

ترکی، انڈونیشیا، اردن اور مصر جیسے کئی ملکوں کو بھی اقوام متحدہ کی چھتری تلے وہاں جنگ بندی کی نگرانی کے لئے مائل کیا جارہا ہے۔ مسلم ممالک کی اکثریت جنگ کی نگرانی کو آمادہ ہے۔ خوشحال اسلامی ملک غزہ کی بحالی کے لئے خطیر سرمایہ کاری کو بھی آمادہ ہیں۔ کوئی بھی اسلامی ملک مگر اس امر کو تیار نہیں کہ غزہ میں تعینات ہوئے اس کے فوجی دستے گھر گھر جاکر حماس کے نمایاں کارکنوں کو ڈھونڈ کر ان سے ہتھیارپھینکنے کا مطالبہ کریں گے۔ مذکورہ تناظر میں فقط پاکستان ہی پر دبائو بڑھانا خیام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.