Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Sidney Hamla, Bharat Ka Junoo Khak Hua

Sidney Hamla, Bharat Ka Junoo Khak Hua

آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے قریب واقع ایک ساحلی مقام پر گزرے اتوار کے دن ہولناک حملہ ہوا۔ اس کے ذمہ دار ساجد اور نوید نامی دو باپ بیٹا تھے۔ جدید ترین بندوقوں سے انہوں نے ساحلی مقام پر جمع ہوئے ان یہودی خاندانوں کو نشانہ بنایا جو اپنا مذہبی تہوار -ہناکا- منارہے تھے۔ یہودیوں کے ایک مقدس تہوار کے دن آسٹریلیا کے شہر میں ہوا حملہ درحقیقت یہ پیغام دینے کی بھونڈی کوشش تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہودی اب مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ ربّ کا سو بار شکر کہ اس نے یہ پیغام ناکارہ بنانے کے لئے غیبی مدد فرمائی۔ شام سے آسٹریلیا میں آکر آباد ہوئے احمدال احمد نے اپنی جان پر کھیل کر ایک حملہ آور کو دبوچ کر اس سے بندوق چھین لی اور وہ 16سے زیادہ افراد کو ہلاک نہ کرپایا۔ یہودیوں کو بچاتے ہوئے شامی مسلمان زخمی ہوکر ہسپتال داخل ہونے کو مجبو رہوا۔ اسے اب دنیا بھر میں "ہیرو" کے طورپر سراہا جارہا ہے۔

آسٹریلیا میں یہودیوں پر حملہ کرنے والے دنیا بھر میں مسلم-یہودی فسادات بھڑکانے میں ربّ کی مہربانی اور احمدال احمد کی بہادری کی بدولت ناکام رہے۔ ہمارے "سیکولر" ہمسائے کے بے تحاشہ "مستند" اور "غیر جانبدار" شمار ہوتے صحافیوں نے مگر یکسو ہوکر اتوار کے روز آسٹریلیا کے ساحلی مقام پر حملہ ہونے کے محض دو گھنٹے گزرنے کے بعد نہایت اعتماد اور تواتر سے "خبر" یہ پھیلانا شروع کردی کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ مبینہ حملہ آوروں میں سے ایک -نوید اکرم-کی تصاویر بھی حاصل کرلی گئیں۔ ان میں سے ایک میں وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لئے مختص جرسی بھی پہنے ہوئے تھا۔

بھارتی میڈیا نے یکسوہوکر نہایت جنون سے حملہ آوروں کو "پاکستانی" ٹھہرادیا تو غیر ملکوں میں مقیم چند افغان خواتین نے انگریزی میں پیغام ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کرنا شروع کردئیے۔ ان کے ذریعے اس امر پر اصرار ہوا کہ پاکستانی جبلی طورپر دہشت گردی کی جانب رغبت محسوس کرتا ہے۔ عالمی امن یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ پاکستانیوں کو غیر ملکی ویزے دینے سے انکار کردیا جائے۔ مطالبہ یہاں ختم نہ ہوا۔ تجویز یہ بھی دہرائی گئی کہ غیر ملکوں میں کئی برسوں سے مقیم پاکستانیوں (ہر مسلمانوں نہیں) کا کڑا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے ممکنہ دہشت گردوں کو تلاش کرکے پاکستان واپس بھیج دیا جائے۔

بھارتی اور سوشل میڈیا پر چھائے پاکستان دشمن افغانوں کے نفرت انگیز پیغامات کے باوجود آسٹریلیا کی حکومت نہایت بردباری سے حملہ آوروں کی شناخت بتانے سے انکار کرتی رہی۔ نہایت مہذب وملفوف انداز میں وہاں کے حکام یہ حقیقت اجاگر کرتے رہے کہ ایک حملہ آور 1998میں آسٹریلیا آیا تھا۔ یہاں اس نے ایک یورپی خاتون سے شادی کی۔ اس کے بعد جولڑکا پیدا ہوا وہ پیدائشی آسٹریلین ہے۔ کسی اور ثقافت پا ملک کو اس کے جرم کا ذمہ دار لہٰذا ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔ مدعی کے مقابلے میں تاہم بھارتی "گواہ" اپنی چستی دکھانے میں مصروف رہے۔

پورا دن گزرجانے کے بعد پاکستانی وقت کے مطابق پیر کی شام ایک بھارتی ٹی وی چینل سی این این-18نے یہ خبر دی کہ آسٹریلیا کی حکومت نے بھارتی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ مذکورہ رابطے کا مقصد آسٹریلیا کے ساحل پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں ملاقات کا حصول ہے۔ مذکورہ حملہ آوروں کو احتیاطاََ سی این این 18نے "جنوبی ایشیائی"بتایا۔ جنوبی ایشیاء مگر ایک بہت بڑا خطہ ہے۔ وہاں سے آبائی تعلق رکھنے والے کسی شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے صرف بھارتی حکومت سے رابطے کا ایک ہی مطلب تھا کہ حملہ آور کا تعلق بھارت سے نکل آیا تھا۔

بھارتی چینل کی جانب سے "بریکنگ نیوز" آنے کے بعد محض گمنام ٹرول ہی نہیں چند "مستند، معتبر اور تجربہ کار" گردانے بھارتی صحافی بھی سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فام پر سی این این-18کو "ملک دشمن" ہونے کے طعنے دینے لگے۔ آنکھ پر دبائو سے محفوظ رہنے کے لئے مجھے سوشل میڈیا سے عموماََ اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ خود تو نہیں دیکھا مگر سوشل میڈیا کا دیوانگی سے پیچھا کرنے والوں نے یہ خبر دی ہے کہ اپنے خلاف اٹھے دبائو سے گھبراکر سی این این -18چینل نے وہ خبر بالآخر ڈیلیٹ کردی تھی جس میں آسٹریلیا کی جانب سے بھارتی حکومت کے ساتھ رابطے کا دعویٰ ہوا تھا۔

آسٹریلیا کی حکومت نے تفتیش پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے حملہ آوروں کی شناخت بتانے سے گریز کی پالیسی اختیار کئے رکھی۔ حکومت فلپائن مگر ایسی ذمہ داری اپنانے کی عادی نہیں۔ اپنے امیگریشن ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعداس نے سرکاری طورپر اعلان کردیا کہ دسمبر کی 14تاریخ کو سڈنی کے ساحل پر یہودی تہوار منانے والوں پر حملہ کرنے والے نومبر کے اوائل میں ان کے ملک آئے تھے۔ باپ نے بھارتی پاسپورٹ پر سفر کیا۔ بیٹے نے البتہ آمدورفت کے لئے آسٹریلیا کا پاسپورٹ ہی استعمال کیا۔ حکومتِ فلپائن نے مزید اطلاع یہ بھی دی کہ آسٹریلیا آنے کے بعد دونوں باپ بیٹا فلپائن کے رقبے کے اعتبار سے دوسرے بڑے جزیرے میان دائو چلے گئے۔

یہ جزیرہ نہایت زرخیز ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکومتِ فلپائن کی پشت پناہی میں متعصب مسلم دشمن جاگیر دار وسیع بنیا دوں پر دنیا بھر میں فروخت کے لئے کیلااور انناس اُگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جزیرے میں گنے اور مکئی کی فصل بھی بہت باورآور ہوتی ہیں۔ مذکورہ جزیرے کو چودھویں صدی میں ملایا (آج کا ملیشیا)سے تجارت کرنے والے عرب ملاحوں اور تا جروں نے دریافت کیا تھا۔ اسے دریافت کرنے کے بعد اس جزیرے میں مسلمانوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی قائم کرلی تھیں۔ 16ویں صدی میں لیکن سپین فلپائن پر قابض ہوگیا۔ فلپائن پر قابض ہونے کے بعد اس نے سامراجی ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے فلپائن کے تگڑے اور متعصب کیتھولک گھرانوں کو میان دائو میں زمینیں دے کر انہیں آباد کرنے کی دعوت دی۔

سپین سے آزاد ہونے کے بعد فلپائن کی حکومت نے سامراجی چلن جاری رکھا۔ مسلمان مگر جھکنے کو آمادہ نہ ہوئے۔ مسلسل مزاحمت برقرار رکھی جو "افغان جہاد" کے بعد 1980 کی دہائی کے ا ختتام پر مسلح بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔ مختلف معاہدوں، بے تحاشہ رابطوں اور حکومتِ فلپائن کی جانب سے مسلسل کارروائیوں کے بعد میان دائو فی الوقت پرامن دکھائی دیتا ہے۔ وسیع وعریض جزیرے میں لیکن مسلم انتہا پسند تنظیم -داعش- نے اپنے حامی ڈھونڈ کر دیگر ملکوں سے آئے "رضا کاروں" کے لئے "تربیت گاہیں" بنالی ہیں۔ نظر بظاہر آسٹریلیا میں حملہ آور ہوئے باپ بیٹا جنگی تربیت کے لئے ہی گزشتہ مہینے میں یہاں آئے تھے۔

بھارت ان کی شناخت ہوجانے کے بعد انتہائی ڈھٹائی سے مصر ہے کہ آسٹریلیا کے ساحل پر حملہ آور ہونے والوں کا تعلق خواہ بھارت سے نکلا مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ ماضی کے حیدر آباد (دکن) اور آج کے تلگانہ سے آسٹریلیا آباد ہوئے "مسلمان" ہیں۔ مرغی کی ایک ٹانگ پر زور دیتے ہوئے ہر مسلمان کو لہٰذا جبلی طورپر دہشت گرد ثابت کرنے میں تمام تر ذہنی توانائی خرچ کی جارہی ہے۔ کامل نفرت پر مبنی بیانیے کو فروغ دیتے ہوئے یہ تلخ حقیقت نظرانداز کی جارہی ہے کہ "داعش" اب عراق اور شام کے مخصوص حصوں تک محدود نہیں رہی۔ دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکی ہے اور اس کا واحد مقصد اب "خلافت الہیہ" کا قیام نہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی ممکن ہو خونخوار حملوں کے ذریعے ہولناک تباہی پھیلانا ہے۔ کوئی بھی مسلم یا غیر مسلم ملک اپنے تئیں اس تنظیم کے فروغ پر قابو نہیں پاسکتا۔ اس پر قابو پانے کے لئے دنیا کے ہر ملک کو حصہ ڈالنا ہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.