Monday, 22 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Ghaza Ke Liye Aman Fauj Aur Sifarti Zuban Ki Bareekiyan

Ghaza Ke Liye Aman Fauj Aur Sifarti Zuban Ki Bareekiyan

تقریباًتین ہفتے قبل جب میرا بلڈپریشر زندگی کی اختتامی گھڑیاں دکھاتا نظر آیا تو میں ڈھٹائی سے مزید کچھ دن زندہ رہنے کو بے قرار ہوگیا۔ انکل گوگل سے تمام تر شکایتوں کے باوجود گھنٹوں رجوع کیا۔ رات سونے سے قبل دنیا بھر کے سچے جھوٹے ماہرین امراضِ قلب کے مفت فراہم کیے مشورے بھی غور سے سنے۔

ڈاکٹروں کے پاس ضائع کرنے کو وقت نہیں ہوتا۔ جس کسی سے بھی رابطہ ہوا اس نے اس مشین کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جو میری بیوی نے دوائیوں کی ایک معتبر گردانی دوکان سے بلڈپریشر کی پیمائش کے لیے خریدی تھی۔ پہلا مشورہ یہ ملا کہ اس آلے کے ذریعے پیمائش کروائی جائے جو ہمارے بچپن میں ڈاکٹر استعمال کیا کرتے تھے۔ اس میں پیمائش کے لیے پارہ استعمال ہوتا ہے۔ پارے کا استعمال اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے ان دنوں ڈاکٹروں کے پاس بلڈپریشر کی پیمائش کے لیے جو پرانے آلات ہیں دو یا تین دہائیوں بعد عجائب گھروں کو دان کردیے جائیں۔ اس آلے کے استعمال کے بعد بھی البتہ میرا اوپر والا بلڈپریشر 225اور نیچے والا 90سے زیادہ ہی نکلا۔

ڈاکٹر حیران ہوئے۔ سمجھ نہ پائے کہ فشارِ خون کی یہ سطح چھونے کے باوجود میں دل کے دورے اور فالج سے کیسے محفوظ رہا۔ غالباً میرے بچ جانے کی وجہ جاننے کے لیے پانچ کے قریب ٹیسٹ ہوئے۔ چھاتی کا ایکسرے بھی لیا گیا۔ ان کے نتیجے میں کوئی غیر معمولی شے دریافت نہ ہوئی۔ فیصلہ بالآخر یہ ہوا کہ میرے بلڈپریشر کی اصل وجہ Anxietyہے۔ انگریزی کے اس لفظ کا اردو ترجمہ انکل گوگل نے اضطراب، بے چینی، پریشانی یا گھبراہٹ بتایا تھا۔ وضاحت بھی کردی کہ انسان ان کیفیات سے اس وقت گزرتا ہے جب مستقبل میں کسی ناگہانی واقعہ کے خوف اور مسلسل فکر سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے آپ توجہ مرکوز رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ نیند بھی بقول شاعر رات بھر نہیں آتی۔

ذاتی زندگی کا بغور جائزہ لینے کے بعد مجھے ہمہ وقت پریشان رہنے کی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہ آئی۔ سفید پوش زندگی گزارتے متوسط طبقے کے حوالے سے زندگی روزمرہ کی عمومی پریشانیوں اور الجھنوں کے باوجود گزر ہی رہی ہے۔ حرص وحسد فطرت میں کبھی شامل ہی نہیں رہے۔ اپنے حوالے سے لہٰذا Anxietyکا ترجمہ بے کلی، زیادہ شاعرانہ محسوس ہوا۔ ڈاکٹروں کی مگر سخت ہدایت تھی کہ اضطراب وبے چینی کے علاوہ جو بھی ترجمہ کرنا ہے کرلو۔ کچھ اور دن مگر زندہ رہنا ہے تو بلڈپریشر کی زیادہ مؤثر دوا کی ایک گولی ناشتے کے ساتھ لینے کے علاوہ رات کی نیند یقینی بنانے کے لیے بھی ایک اور گولی ہر صورت لینا ہوگی۔ زندہ رہنے کی خواہش میں مذکورہ ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بلڈپریشر کو کافی حد تک نیچے لانے میں کامیاب ہورہا ہوں۔

اپنی ذات کے حوالے سے اضطراب وبے چینی کے اسباب البتہ ابھی تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ انھیں ڈھونڈتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ دورِ حاضر میں پاکستان جیسے ملکوں میں صحافت دل کی بے چینی کا اہم ترین سبب ہے۔ عمر کے مگر اس حصے میں پہنچ چکا ہوں جہاں اس دھندے سے نجات ممکن نہیں۔

گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں مستند ترین گردانی ایک خبر رساں ایجنسی -رائٹرز- میں ایک خبر چھپی تھی۔ اسے پڑھا تو ماتھا ٹھنکا۔ صحافتی کیرئیر کے 25سے زیادہ برس امور خارجہ کی رپورٹنگ میں لگائے ہیں۔ اس شعبے کی ذمہ داری ملتے ہی استادوں نے سکھایا تھا کہ سفارت کاری کے بارے میں رپورٹنگ کرنا ہے تو وزارتِ خارجہ کے ترجمان، وہاں سے آئی پریس ریلیز اور دو ممالک کے سربراہان کے مابین ملاقاتوں کے بعد جاری ہوئے مشترکہ اعلامیے یا بین الاقوامی کانفرنسوں کے اختتام پر جاری کردہ اعلانات ایک سے زیادہ بار پڑھو۔ انھیں پڑھتے ہوئے جو انگریزی سیکھ رکھی ہے اسے بھول جائو۔ سفارت کاری کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اسے Diplomatese کہتے ہیں۔ وہ سمجھ آجائے تو عام مشترکہ اعلامیوں یا وزارت خارجہ کے سرکاری طورپر دیے بیانات ہی سے ایسی خبر، نکل سکتی ہے جو کئی صحافی نظرانداز کردیتے ہیں۔

میری خوش قسمتی کہ سفارت کاری کے بارے میں رپورٹنگ کا آغاز کیا تو ہماری وزارت خارجہ میں ڈاکٹر تنویر احمد خان اور ریاض کھوکھر جیسے اعلیٰ ترین افسران استادوں کی طرح متجسس اور محنتی نوواردوں کی تربیت کو فراخ دلی سے آمادہ رہتے تھے۔ ان سے سیکھا ابھی تک کام آرہا ہے۔ ان کے سکھائے ذہن نے رائٹرز کی دی خبر پڑھی تو ذہن میں کئی سوالات ابھرے۔ مذکورہ خبر میں دو ذرائع، کے حوالے سے اس ا مکان کا اظہار کیا گیا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان کے فیلڈ مارشل، آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس کی امریکی صدر سے واشنگٹن میں ایک ملاقات ہوسکتی ہے۔

ملاقات کا امکان رد کرنے کی میرے پاس کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں تھی۔ مذکورہ خبر کے ابتدائیہ اور اس کے بعد لیے تبصرے تاہم جو پیغام دے رہے تھے وہ میرا ذہن تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ پوری خبر کا سادہ ترین پیغام یہ تھا کہ امریکی صدر پاکستان کے فیلڈ مارشل کو یہ حکم دینے واشنگٹن طلب کررہا ہے کہ فوری طورپر اس کے تیارکردہ امن فارمولے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے غزہ میں پاکستانی فوج کے دستے بھیجے جائیں۔

رائٹرز کی خبر میں دیے پیغام، اس کی بنت اور تبصرہ آرائی کے لیے مائیکل گوکل مین جیسے متعصب امریکی ماہرین، سے رابطہ دل و دماغ کو قائل نہ کرسکا تو گھر بیٹھے ہی کسی کے حکم یا ستائش کی تمنا کیے بغیر مذکورہ خبر کے پیغام اور بنت پر سوال اٹھادیے۔ دو ٹکے کا رپورٹر اس وقت بہت خوش ہوا جب مذکورہ خبر چھپنے کے 24گھنٹے بعد وائٹ ہائوس کے ایک افسر نے سعودی عرب کے عرب ٹائمز، کو یہ اطلاع دی کہ امریکی صدر کے کیلنڈر، میں فی الوقت وہ تاریخ نظر نہیں آرہی جس دن اس کی پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات متوقع ہے۔ تقریباً ایسا ہی ردعمل پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی دیا۔

طرم خانی کے خمار میں رائٹرز کی دی خبر کے بارے میں میری جانب سے ہوا پوسٹ مارٹم درست ثابت ہوا تو میں نے اپنی مدح میں ایک اور کالم لکھ دیا۔ وہ کالم چھپنے کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو اس پر تبصرہ کرنے والوں کی کثیر تعداد نے لفافی بڈھے، کی عقل پر ماتم شروع کردیا۔ ماتم کنائی کے متوازی ایک اور گروہ مصررہا کہ حرام کھانے کا عادی صحافی، ابھی تک یہ دریافت ہی نہیں کرپایا ہے کہ پاکستان امریکا کو نہ، کہنے کی جرأت سے یکسر محروم ہے۔

حکومتِ پاکستان کی ترجمانی میرا فریضہ نہیں۔ محض صحافتی تجربہ کی بدولت بے شمار واقعات مگر یاد ہیں جہاں پاکستان نے چند معاملات پر شدید ترین امریکی دبائو کو بھی قبول نہیں کیا تھا۔ قدرت اللہ شہاب کا میں گرویدہ نہیں۔ موصوف نے لیکن اپنی آپ بیتی -شہاب نامہ- میں امریکا کی چین کے ساتھ پاکستان کی 1960ء کی دہائی میں شروع ہوئی قربت کے بارے میں خفگی کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ مرحوم آغا شاہی کی بدولت مجھے بھی اس تناظر میں چند واقعات سننے کو ملے۔

میری صحافت کے آغاز کے دنوں میں ہنری کسنجر پاکستان آیا تھا۔ لاہور کے گورنر ہائوس میں اس نے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ مئی 1998ء میں بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر جوابی دھماکا نہ کرنے کے لیے امریکی صدر کلنٹن کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو پانچ کے قریب بر اہِ راست فون تو کل کی بات ہے۔ پاکستان نے مگر اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شدید ترین دبائو کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ حرام کھانے کے عادی لفافی بڈھے، کو مگر پاکستان کی تاریخ سے عدم آگاہی کے طعنے ملتے رہے۔

خود کو غصے میں آکر بلڈپریشر بڑھانے سے بچانے کے لیے آسان طریقہ ہے کہ اپنے چھپے کالم کے نیچے آئے تبصروں کو دیکھنے سے پرہیز کیا جا ئے۔ وہ پرہیز بھی مگر کام نہیں آیا۔ جمعہ کے روز امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا کیونکہ وہ غزہ میں اپنی فوجیں بھیجنے کو رضا مند ہے۔ مارکوروبیو نے اس ضمن میں جو کلمات ادا کیے انھیں بھارتی نیوز ایجنسی -اے این آئی- نے وڈیو کلپ کی صورت پھیلایا۔ وہ کلپ محبانِ وطن، کی مؤثر تعداد مجھے براہِ راست واٹس ایپ کے ذریعے بھیجنا شروع ہوگئی۔ واٹس ایپ پر آئے پیغامات کی بہتات سے اُکتا کر کئی ایک کو میں نے بلاک کردیا۔ ایسے حالات میں بلڈپریشر پر قابو پانے کے لیے آ ہنی اعصاب درکار ہیں۔

اپنی اعصابی کمزوری کے اعتراف کے باوجود اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ اگر آپ مارکوروبیو کے جواب کا پورا متن غور سے پڑھیں تو واضح ہوجائے گا کہ وہ محض اس حقیت کو دہرارہا ہے کہ پاکستان دیگر کئی اسلامی ممالک کی طرح غزہ میں امن کی نگرانی کے لیے اپنی فوج بھیجنے کو تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر وہ یہ بھی اعتراف کررہا ہے کہ فی الحال غزہ میں امن کی خاطر جس فوج کو تشکیل دینا ہے اس کی کمانڈ تنظیم اور اخراجات کے بارے میں ابھی تک کئی معاملات حل طلب ہیں۔ علاوہ ازیں، مجوزہ فوج کا مینڈیٹ یا ذمہ داری کا تعین بھی ابھی تک خاطر خواہ انداز میں طے نہیں ہوپایا ہے۔ امریکی صدر کی پاکستانی فوج کے سربراہ سے ملاقات کا ذکر اس نے بھی نہیں کیا۔ جو خبر، مارکوروبیو نے دی ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ لفافی بڈھے، کو مگر یار لوگ سفارت کاری سکھانے کو ڈٹے ہوئے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.