عمران خان صاحب کے 2022ء میں برے دن شروع ہوتے ہی امریکا میں انٹرنیٹ کے لیے بنائی ایک خبر ایجنسی، وہاں مقیم عاشقان کی دلجوئی کے لیے متحرک ہوگئی۔ Intercept (انٹرسپٹ) اس کا نام تھا۔ اس کے کلیدی صحافی Ryan Grim (ریان گرم) تھے۔ میری نسل کے صحافیوں کے برعکس یہ صاحب حق وباطل کے مابین معرکوں میں حق، کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونے کے دعوے دار ہیں۔
عمران خان کی پاکستان کی وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرفی ان کی دانست میں ناحق، تھی۔ ان کے ساتھ ہوئی ناانصافی، کا ذمہ دار گرم اور اس کے ساتھیوں نے بائیڈن انتظامیہ کو ٹھہرایا جو پاکستان میں رجیم چینج، کو اس لیے مجبور ہوئی کیونکہ عمران خان روس اور یوکرین کے درمیان ہوئی جنگ میں غیر جانب دار رہنے کو ڈٹ گئے تھے۔ یوکرین کو جمہوریت کی بقاء کے لیے مزاحمت کرنے والا ملک تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
انٹرسپٹ میں بائیڈن انتظامیہ کی عمران حکومت کے خلاف رچائی مبینہ سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے مختلف سنسنی خیز کہانیاں مسلسل چھپتی رہیں۔ ان کہانیوں کو مجھ جیسے گزرے دور کے صحافی، خواہشوں کو خبر بنانا تصور کرتے رہے۔ امریکا اور پاکستان میں میقم عاشقان عمران کی بے پناہ اکثریت کو البتہ یہ کہانیاں حوصلہ فراہم کرتی رہیں۔
2024ء میں نجانے کن وجوہات کی بنا پر انٹرسپٹ سے گرم صاحب الگ ہوگئے۔ چند ماہ قبل انٹرنیٹ کے لیے ہی ایک اور نیوزسائٹ بنالی ہے۔ اس کا نام Drop Site Newsہے۔ جولائی کی گیارہ تاریخ کو وہاں گرم نے دو مزید رپورٹروں کے ساتھ مل کر ایک خبر دی ہے۔ اس میں دعویٰ ہوا کہ پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ وائٹ ہائوس میں حال ہی میں ہوئی ایک ملاقات کے دوران امریکی صدر نے دوپہر کے کھانے کے لیے بلائے مہمان کو مشورہ دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ اپنے معاملات حل (Resolve)کریں۔
مذکورہ خبر، میں دعویٰ ہوا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو یہ مشورہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے انھیں بتایا کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد نے انھیں امریکا کا دوبارہ صدر بننے کے لیے ووٹ دیا ہے۔ ان پاکستانیوں کی ایک کافی تعداد ان کی دوست بھی ہے۔ خبر، میں یہ تو بیان نہیں ہوا کہ ٹرمپ کے مبینہ دوست عمران خان کے خیر خواہ بھی ہیں۔ بین السطور مگر یہ پیغام دیتے ہوئے ہی عمران خان صاحب کے ساتھ معاملات حل (Resolve)کرنے کا مشورہ نمودار ہوا ہے۔
اسلام آباد میں اپنے گھر تک محدود ہوا میں اس قابل نہیں کہ ڈراپ سائٹ نیوز، کی دی خبر کی تصدیق یاتردید کرسکوں۔ گرم اور اس کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان سے معاملات طے کرنے والی خبر، وہ دو ایسے لوگوں سے گفتگو کے بعد دے رہے ہیں جنھیں ہمارے فیلڈ مارشل اور امریکی صدر کے مابین ہوئی گفتگو کی تفصیلات کا علم ہے۔ ان رپورٹروں کے مطابق مذکورہ ملاقات میں دونوں اطراف سے چار چار افراد شریک تھے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی بھی مذکورہ ملاقات میں ڈراپ سائٹ نیوز، کے بقول موجود تھے۔ نقوی صاحب کے علاوہ ان رپورٹروں نے چوتھے پاکستانی کا نام نہیں لکھا جو اس ملاقات میں موجود تھا۔ امریکا کی جانب سے موجود ٹرمپ کے علاوہ باقی افراد کے نام بھی نہیں لیے گئے۔
مجھ جیسے صحافی جنھیں ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کے دور میں پتھر کے زمانے کا صحافی تصور کیا جاسکتا ہے 11جولائی 2025ء کو چھپی خبر پڑھ کر کافی سوالات اٹھانے کو مجبور ہوگئے ہیں۔ مثال کے طورپر پاکستان کے فیلڈ مارشل کو مشورہ دینے والی کہانی کے جو دو ذرائع، بتائے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ بتانے کا تردد بھی نہیں ہوا کہ وہ پاکستانی تھے یا امریکی۔ پاکستانی نژاد امریکی بھی ان کے ممکنہ ذرائع ہوسکتے ہیں۔ ذات کا یہ رپورٹر دو سے زیادہ مرتبہ 11جولائی 2025ء کے روز چھپی خبر پڑھ کر نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ مذکورہ خبر، میں وزیر داخلہ محسن نقوی کا نام محض اس لیے لیا گیا ہے تاکہ خبر، پڑھنے والا یہ فرض کرلے کہ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد موصوف نے اس کی تفصیلات امریکا میں مقیم کسی پاکستانی دوست کو بتادی ہوں گی۔ خبر، کا اصل منبع درحقیقت نقوی صاحب کی ذات ہے۔
امریکی ریاست وحکومت کے ذرائع ابلاغ سے تعلق کی حرکیات سے میں فلیچر سکول آف لاء اینڈڈپلومیسی کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد مناسب حد تک آگاہ ہوچکا ہوں۔ امریکی صدر کی پاکستان آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کو میڈیا کے لیے کلوزڈ، بتایا گیا تھا۔ اس کے اختتام پر وائٹ ہائوس کی جانب سے کوئی بیان بھی جاری نہیں ہوا جو مذکورہ ملاقات کے دوران زیر بحث آئے موضوعات کا عندیہ دیتا۔
اس ملاقات کے شرکاء میں اہم ترین دونوں ممالک کے مشیرانِ قومی سلامتی بھی تھے۔ ان کی موجودگی واضح پیغام دیتی ہے کہ ٹرمپ -عاصم منیر ملاقات کا کلیدی موضوع دفاعی اور سکیورٹی سے متعلق معاملات ہی رہے ہوں گے۔ اس ملاقات سے قبل صدر ٹرمپ امریکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا نام لے کر شکریہ ادا کرچکے ہیں جس کی وجہ داعش کے کئی برسوں سے زیر زمین، ہوئے ایک بین الاقوامی دہشت گرد کی گرفتاری تھی۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اسے گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا۔
ہمارے ہاں بھی سرکاری طورپر مذکورہ لنچ کے دوران ہوئی گفتگو کے موضوعات کا ذکر نہیں ہوا۔ امریکی حکومت کی طرح ہماری سرکار نے بھی اس ضمن میں میڈیاکو اشارتاً بھی کچھ بتانے سے گریز کیا۔ ہماری حکومت کے چند تگڑے وزراء اگرچہ نجی محفلوں میں یہ دعویٰ کرتے بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ محسن نقوی صاحب وائٹ ہائوس تو گئے تھے لیکن اس لنچ میں موجود نہیں تھے جو فیلڈ مارشل کے اعزاز میں دیا گیا تھا۔
بذاتِ خود نقوی صاحب نے اس ضمن میں خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے ساتھ اپریل 2016ء میں نیویارک کے سفر کے دوران چند دن گزارنے کے بعد میں دعویٰ کرسکتا ہوں کہ محسن نقوی بہت گہرے آدمی ہیں۔ دل کی بات شاذ ہی زبان پر لاتے ہیں۔ مجھے یہ سوچ ہضم کرنے میں بہت دشواری محسوس ہورہی ہے کہ اگر محسن نقوی صدر ٹرمپ کے دیے لنچ کے دوران کھانے کی میز پر موجود بھی تھے تو انھوں نے وہاں ہوئی گفتگو کا امریکا میں مقیم کسی قریب ترین دوست سے بھی ذکر کیا ہوگا۔ اصولی طورپر امریکا میں قیام کے دوران وہ فیلڈ مارشل کے ساتھ ہی ٹکے رہے ہوں گے۔
نقوی صاحب کا ذریعہ، ہونے کی فروعی بحث میں الجھے بغیر ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ہمارے وزیر داخلہ کے برعکس مریکی صدر ٹرمپ کے لیے دل کی بات دل ہی میں رکھنا ناممکن ہے۔ وہ بڑبولے شخص ہیں۔ اپنی خواہشات پر موصوف کی سوئی اٹک جاتی ہے اور وہ ان کا ذکر دہرائے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر اب تک کم از کم 20مرتبہ وہ یہ دعویٰ دہراچکے ہیں کہ حالیہ مئی میں پاکستان ا ور بھارت کے مابین ممکنہ طورپر ایٹمی جنگ انھوں نے رکوائی۔ بھارتی وزیر اعظم سے خفگی کا برملا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے پاک-بھارت جنگ رکوانے کے ضمن میں کیے دعویٰ کی پبلک میں تصدیق نہیں کررہا۔
امریکا کے پچھواڑے میں ایک بڑا ملک برازیل بھی ہے۔ اس کا سابق صدر بولسو نارو (Bolsonaro)بھی ٹرمپ جیسا قدامت پرست ہے۔ اکتوبر2022ء میں وہاں انتخاب ہوئے تو اس رہنما سے ہار گیا جسے برازیل کی عدالت سے سیاست میں حصہ لینے کے نااہل کرنے والے کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ لولاکے نام سے مشہور یہ ر نما ابھی جیل ہی میں تھا تو حالات بدل گئے۔ نامعلوم ذرائع، سے حقیقت یہ اجاگر ہونا شروع ہوئی کہ لولا کو برازیل کی عدالتوں نے ایک سازش کے تحت واٹس ایپ پر ملے پیغامات کے نتیجے میں نااہل قرار دیا تھا۔ اس کے ایوان صدر لوٹنے کے بعد بولسو نارو اب مشکل میں ہے۔ اس کے خلاف اکتوبر2022ء کے انتخابی نتائج کو متشدد احتجاج کے ذریعے تسلیم نہ کرنے کے الزام میں سزا سنانے کے لیے سپریم کورٹ متحرک ہوچکا ہے۔ بولسو نارو کا 41سالہ بیٹا ایڈورڈ گزشتہ کئی مہینوں سے وائٹ ہائوس کے پھیرے لگارہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ صدر ٹرمپ اس کے باپ کو سزا سے بچائے۔ ٹرمپ نے مگر لفٹ نہ کروائی۔
برازیل میں لیکن چند روز قبل برکس نامی تنظیم کا اجلاس ہوا۔ اس میں بھارتی وزیر اعظم بھی شریک ہوا۔ مذکورہ اجلاس کے اختتام پر امریکا کی ٹیرف کے بارے میں ٹرمپ کی اپنائی پالیسیوں کے منفی نتائج، کے بارے میں متنبہ کیا گیا۔ اپنی پالیسیوں پر تنقید سے ٹرمپ طیش میں آگیا۔ برازیل سے امریکا آنے والی اشیاء پر 50فیصد ڈیوٹی لگادی۔ بات وہیں ختم نہیں ہوئی۔ برازیل کے صدر کو دھمکی آمیز انداز میں بولسو نارو کے خلاف کسی انتقامی کارروائی، سے باز رہنے کا حکم بھی دیا جارہا ہے۔
ٹرمپ کی شخصیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ اگر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عمران خان سے معاملات حل (Resolve)، کرنے کا مشورہ واقعتا دیا ہے تو چند ہی دنو ںمیں وہ اس کا برسرعام اظہار بھی شروع کردے گا۔ وہ خاموش رہا تو ڈراپ سائٹ نیوز، کی 11جولائی والی خبر غلط ثابت ہوگی۔