وطن عزیز میں اقتدار واختیار کا کھیل کئی دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں۔ اس کا بقول صوفی تبسم آغاز وانجام ہمیشہ رسوائی ہی دیکھا۔ اسی باعث کئی مہینوں سے دانستہ کوشش کررہا ہوں کہ سیاست کے علاوہ دیگر موضوعات پر لکھا جائے۔ آسمان کے مزاج پر کامل انحصار کے عادی کسان کی طرح مگر کوئی ایک سیاسی واقعہ بھی ہوجائے تو ماضی کے بے تحاشہ ایسے واقعات یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں جو بالآخر ریاست کے نام نہاد ستونوں کے مابین تخت یا تختہ کی چپقلش میں بدل گئے۔
پیر کے روز بھی ایسا ہی محسوس کیا۔ جی ہاں لاہور ہائی کورٹ سے آئے ایک حکم نامے اور اسے لکھنے سے قبل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے بھری عدالت میں ادا کئے فقرے جو اس قانون پر تنقیدی سوالات اٹھاتے سنائی دئے جو حکومت پنجاب نے اکتوبر کے مہینے میں آرڈیننس کی صورت جاری کرنے کے بعد دسمبر کے دوسرے ہفتے میں صوبائی اسمبلی سے پاس کروالیا تھا۔ مقصد اس قانون کا زمینوں پر ناجائز قبضوں کے رحجان کا خاتمہ بتایا گیا تھا۔
سچی بات یہ بھی ہے کہ محض ڈنگ ٹپانے کی خاطر کالم نویسی کے نام پر ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی قلم گھسیٹنے کی عادت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ پنجاب میں زمینوں پر ناجائز قبضوں کو ناممکن بنانے کے لئے اکتوبر میں جاری ہوئے آرڈیننس میں کیا حکمت عملی متعارف کروائی گئی تھی۔ تحقیق کا ہم صحافیوں کو شوق نہیں۔ بھاشن دینے کا عارضہ لاحق ہوچکا ہے۔ تحقیق کے بعد دئے بھاشن علمی لیکچر کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ پڑھنے والوں کو مزا نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر شیئرز اور لائیکس نصیب نہیں ہوتے۔
نومبر کے وسط میں لیکن میرے ایک عزیز دوست پاکستان تشریف لائے۔ 1978ء میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں رہنے کے قابل نہیں۔ یورپ کے ایک ایسے ملک چلے گئے جو فلسفے سے محبت کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے سماجی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والے علم پر گرفت حاصل کی۔ جس ملک میں مقیم تھے وہاں کی ایک خاتون سے شادی کی جو دس برس بعد ختم ہوگئی۔ ان کے بچے بھی نہیں ہیں۔ تنہا رہتے ہیں اور ریٹائر ہوجانے کے بعد اکثر لاطینی امریکہ کے کسی ملک کے طویل دورے پر نکل جاتے ہیں۔
رواں برس کے آغاز میں نجانے کیوں انہیں خیال آیا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوکر اسی ملک میں بڑے ہوئے ہیں۔ ان کے چند قریبی عزیز اپنے بچوں سمیت پاکستان ہی میں خوش حال اور متمول زندگی گزاررہے ہیں۔ وہ خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ میرے دوست نے پوری دنیا دیکھ لی ہے۔ دل کا عارضہ بھی لاحق ہوچکا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ وطن لوٹ آئیں اور اپنے عزیز اور ان کے بچوں کی زیر نگرانی اچھی صحت کے ساتھ زندگی کے باقی دن گزاریں۔ اتفاقاََ نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں پنجاب کے دوشہروں میں ان کے بھتیجے اور بھتیجی کی شادیاں بھی طے تھیں۔ موصوف نے فیصلہ کیا کہ شادی کی تقریبات میں بھرپور شرکت کے بعد فیصلہ کیا جائے کہ وطن لوٹنا ہے یا نہیں۔
پنجاب کے دو بڑے شہروں میں کئی روز تک پھیلی تقریبات میں شرکت کے بعد وہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد آئے۔ مشترکہ دوستوں کے توسط سے میرے بلڈپریشر کا علم ہوا تو خیریت معلوم کرنے آگئے۔ اتفاقاََ علم سماجیات کی جانب انہیں میرے سسر مرحوم نے راغب کیا تھا اور اس وجہ سے وہ میری بیوی کو اکثر سماجی تحقیق کے گُر ای میلز اور واٹس ایپ کے ذریعے سمجھاتے رہتے ہیں۔
میرا حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے موجودہ حکومتی بندوبست کے بارے میں سوالات پوچھنا شروع کردئیے۔ اس ضمن میں میری بے اعتنائی نے انہیں زیادہ حیران اور تھوڑا پریشان کیا۔ تحقیق کے عادی ہونے کی وجہ سے مگر بددل نہ ہوئے۔ یہ جاننے کو بے تاب رہے کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ (نون) کی حکومت میری دانست میں کیسے پرفارم کررہی ہے۔ نہایت دیانتداری سے میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بطور رپورٹر میں اپنے مشاہدے پر انحصار کا عادی ہوں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد سے ایک دن باہر جانے سے بھی جی گھبراتا ہے۔ خاندان میں شادی کی تقریبات کے لئے لاہورجانا ہوتب بھی محض اپنی بہنوں کے گھر ہی تک محدود رہتا ہوں۔ کسی دفتری کام کے لئے بھی ایک دن جاکر دوسرے دن واپسی ہوجاتی ہے۔
فروری 2024ء کے بعد سے ایک بار لاہور گیا تو رنگ روڈ پر لگے سیکورٹی کے ناکے نے بہت وقت ضائع کیا۔ وہ ناکہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی لاہور ائیرپورٹ تک سفر کی وجہ سے لگا تھا۔ اس کی وجہ سے رنگ روڈ پر پھنسے لوگوں نے جو کوفت محسوس کی اسے من وعن بیان کردیا۔ "نوائے وقت" نے میرے لکھے کو ایک لفظ کاٹے بغیر چھاپ دیا۔ وہ کالم لکھنے کی وجہ سے مجھے کسی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حکومتوں کو شاید مجھ خبطی بڈھے کو برداشت کرنے کی عادت ہوگئی ہے۔ دورِ حاضر کے حکمران ویسے بھی اخبار میں لکھے کالموں کو اِن دنوں قابل توجہ نہیں گردانتے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کو "ذہن سازی" کے حوالے سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا مجھے حکومتِ پنجاب کی اچھی یا بری کارکردگی کا ذاتی مشاہدہ کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
میری گفتگو غور سے سننے کے بعد میرے دوست نے انکشاف کیا کہ عوامی رائے کے سروے کا عادی ہوا ان کا ذہن اپنے قیام پنجاب کے دوران ملنے والوں سے صوبائی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ موصوف کسی زمانے میں کٹر سوشلسٹ ہوا کرتے تھے۔ ا س کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے خیر کی امید رکھی۔ وہ رومانس مگر بالآخر ختم ہوگیا۔ نواز شریف کی طرز سیاست کے شدید ناقد رہے ہیں۔ غالباََ اس وجہ سے انہیں عمران خان سے بھی کچھ توقعات تھیں جو 2018ء میں ان کی جانب سے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے تین ماہ بعد ہی ختم ہوگئیں۔ ان کی جانب سے قیام پنجاب کے دوران بے شمار لوگوں سے گفتگو کے بعد اخذ کئے نتائج لہٰذا میری نگاہ میں نہایت اہمیت کے حامل تھے۔
ان کی رائے تھی کہ جن لوگوں سے ان کی حکومتِ پنجاب کی کارکردگی کے حوالے سے گفتگو ہوئی وہ مبینہ غنڈوں کو ماورائے عدالت نظام کے ذریعے ٹھکانے لگانے کے فیصلے سے خوش ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے علاقوں میں انہیں صفائی کے انتظامات بھی مطمئن رکھے ہوئے ہیں۔ کئی برسوں سے غیر ملک میں مقیم ہونے کی وجہ سے مگر میرے دوست کی دانست میں مقامی اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں میں سب سے مقبول وہ قانون ہے جس کے ذریعے حکومت پنجاب نے زمینوں پر ناجائز قبضے کے رحجان کے خلاف سختی سے نبردآزما ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ غیر ملک سے آئے دوست کے ساتھ حکومت پنجاب کی کارکردگی کے با رے میں میری گفتگو اتوار کی سہ پہر چائے پر ہوئی تھی۔ ہماری گفتگو کے عین ایک دن بعد میں نے یہ کالم لکھنے اوراسے دفتر بھجوادینے اور پھر اخباروں کا پلندہ ختم کرنے کے بعد ٹی وی کھولا تو وہاں "بریکنگ نیوز" کی صورت لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس صاحبہ کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے خلاف بنائے قانون کے خلاف تنقیدی ریمارکس بھرمار کی صورت نظر آرہے تھے۔
وہ ریمارکس سنتے ہوئے ملکی سیاست کے دیرینہ شاہد کو جبلی طورپر یہ محسوس ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس صاحبہ پنجاب حکومت کے متعارف کردہ ایک قانون کے خلاف سخت ریمارکس دیتے ہوئے شاید اس تاثر کو زائل کرنا چا رہی ہیں کہ آئین میں 26ویں اور 27ویں ترمیم کے اضافے کے بعد عدلیہ انتظامیہ پر سوالات اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔ افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس اپنے منصب پر ایک نہیں دوبار بحالی کے بعد ازخود نوٹسوں کی بدولت عدلیہ نے انتظامیہ پر انگریزی محاورے والا جو اپر ہینڈ (Hand Upper)حاصل کیا تھا اس کے دن تمام ہوئے۔
بات مگر چیف جسٹس صاحبہ کی جانب سے دئے تلخ ریمارکس تک ہی محدود نہ رہی۔ بعدازاں ایک تحریری حکم بھی آگیا۔ اس تحریری حکم کو بغور پڑھنے کے بعد مجھ ڈنگ ٹپائو صحافی نے اس قانون کا مسودہ دیکھنے کی زحمت اٹھائی جو تین ماہ کی ریکارڈعجلت میں حکومت پنجاب نے زمینوں پر ناجائز قبضوں کے رحجان سے نبردآزما ہونے کے لئے متعارف کروایا ہے۔ اس قانون کا مسودہ غور سے پڑھنے کے باوجود دو ٹکے کے اس رپورٹر کی اوقات نہیں کہ اس رائے کا اظہار کرے کہ چیف جسٹس صاحبہ کی جانب سے مذکورہ قانون کے حوالے سے برہمی کا اظہار مناسب تھا یا نہیں۔
سوشل میڈیا پر چھائے "حق پرستوں " کی مؤثر تعداد ا گرچہ حکومت پنجاب کے متعارف کردہ قانون کا دفاع کررہی ہے۔ قبضہ گروہوں کے حوالے سے "وکلاء کی دیہاڑیوں " کا ذکر بھی ہورہا ہے۔ محبوب کو "آرائش خم کاکل" میں مصروف دیکھ کر غالب کو "اندیشہ ہائے دور دراز" لاحق ہو جاتے تھے۔ زمینوں پر نا جائز قبضے کے خلاف پنجاب حکومت کے متعارف کردہ قانون کی پیر کے دن لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے معطلی نے میرے دل ودماغ کو بھی ایسے ہی اندیشوں سے دو چار کردیا ہے۔