Wednesday, 17 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Bayania Sazi Se Kahi Ziada Aham Awam Ka Itminan Hai

Bayania Sazi Se Kahi Ziada Aham Awam Ka Itminan Hai

فیض حمید کو سزا سنائے جانے کے بعد میں نے ایک نہیں دو کالم لکھے ہیں۔ دونوں میں کھل کر اعتراف کیا کہ موصوف نے مجھ بے ہنر کو کبھی براہ راست رابطے کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ میں ان کے دئے کسی حکم کے خلاف مزاحمت کی داستان سناتے ہوئے لہٰذا خود کو پھنے خان صحافی کے طورپر مشہور کرنے کی سعادت سے محروم ہوں۔ 2018ء کے انتخابات کی بدولت جو حکومتی بندوبست نمودار ہونا شروع ہوا وہ البتہ کسی نہ کسی وجہ سے (جو مجھے آج تک معلوم نہیں ہوپائی ہے) مجھ سے خفا ضرور تھا۔

اسی باعث میں مین سٹریم چینلوں میں سے ایک پر پیر سے جمعرات شام آٹھ بجے لائیو شو کرنے والا پہلا ٹی وی اینکر تھا جسے چینل کی "مالی مشکلات" کے نام پر فارغ کردیا گیا۔ پاکستان کا ہر چینل تاہم "مالی مشکلات" کا سامنا نہیں کررہا تھا۔ میری ایک چینل سے فراغت کے بعد کسی اور جگہ نسبتاََ کم تنخواہ پر ملازمت کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ ملازمت نہ ملتی تب بھی مبینہ "سینئر تجزیہ کار" ہونے کے ناطے مختلف ٹی وی چینلوں پر مجھ سے بلامعاوضہ تبصرہ آرائی کروائی جاسکتی تھی۔ پیمرا کے تحت چلائے ہر چینل نے مگر مجھ "سینئر تجزیہ کار" کو فراموش کردیا۔

ان چینلوں کی "یادداشت" میرے حوالے سے البتہ اس وقت لوٹ آئی جب عمران حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہوگئی۔ اس کی رخصت کے بعد ٹی وی پروگراموں میں شرکت کے لئے آئی دعوتوں سے میں چڑجاتا۔ دل میں شدت سے دفن کی ہوئی کمینگی بھی بیدار ہونے لگی۔ جو ٹی وی اینکر میری "گمشدگی "کے دوران مجھ سے مسلسل رابطے میں رہے ان کے پروگراموں میں چلا جاتا اور یاوہ گوئی سے ڈنگ ٹپانے کی کوشش کرتا۔

صحافتی زندگی کے چار برس ریٹائرمنٹ کی عمر میں داخل ہوتے ہی بے روزگاری کا جوعذاب لائے اس کی بدولت دل ودماغ پر چھائے بوجھ کو بھلادینے ہی میں عافیت ہے۔ ویسے بھی صحافت کے شعبے میں داخل ہوتے ہی بزرگوں سے یہ سیکھا تھا کہ صحافی کو دوسروں کی خبر دینا ہوتی ہے۔ اسے خود "خبر" بننے سے ہر صورت گریز اختیارکرنا چاہیے۔ فیض حمید کو سزا سنائے جانے کے بعد جو کالم لکھے ہیں ان میں ذاتی تجربات کا ذکر آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش تھی کہ فیض حمید ایک فرد نہیں رحجان، رویے اور پالیسی کا نام تھا۔ بیانیہ سازی کے حوالے سے موصوف نے رنجیت سنگھ کی طرح "ایہہ منظور تے ایہہ نا منظور" والی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ عمران خان اور قمر جاوید باجوہ نے مذکورہ پالیسی کی تشکیل میں بھرپور حصہ ڈالا تھا۔

جن لوگوں نے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران حکومتی بیانیے کی تشہیر کے عمل میں حصہ لیا ان سے فرداََ فرداََ ملاقاتوں کے بعدآپ بآسانی دریافت کرسکتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم روایتی میڈیا سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پرچھائے ٹرینڈز کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ یہ رویہ اختیار کرنے میں وہ اکیلے نہیں تھے۔ بھارت کے نریندر مودی اور امریکہ کے صدر ٹرمپ بھی روایتی میڈیا کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر موجود تمام پلیٹ فارموں کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے عادی ہیں۔

نریندر مودی مگر عوام سے براہ راست رابطے کے لئے "من کی بات" کے عنوان سے ہر ماہ ایک تقریر بھی کرتا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھارت کے تمام بڑے شہروں کے بس اسٹیشنوں کے قریب ایسی تنصیبات ہیں جہاں کانوں میں لگانے والے آلات موجود ہوتے ہیں۔ آپ وہاں کھڑے ہوکر بھارتی وزیر اعظم کے "من کی بات" سن سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے لوگوں سے براہ راست رابطے کے لئے SocialTruth کے نام سے ایکس جیسا پلیٹ فارم بنارکھا ہے۔ کسی بھی اہم مسئلہ پر جب بھی اس کے ذہن میں کوئی بات آئے وہ اسے مذکورہ پلیٹ فارم پر طویل پیغام کی صورت بیان کردیتا ہے۔

عمران خان صاحب نے اقتدار سے فراغت کے بعد لوگوں سے براہ راست رابطے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے استعمال کے علاوہ شہر شہر جاکر عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کیا اور یوں مبینہ طورپر امریکہ سے آئے دھمکی آمیز "سائفر" کے نام پر ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دیا۔ تین سے زیادہ برس گزرجانے کے باوجود اپریل 2022ء سے قائم ہوا بندوبست ان کے تشکیل کردہ بیانیے کا مؤثرتوڑ فراہم نہیں کرپایا ہے۔ ہمارے حاکم مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی جرأت نہیں دکھاتے اور قوم گومگو کی حالت میں ہے۔

بیانیہ سازی کے حوالے سے سرکاری رہ نمائی کے بغیر پاکستانیوں نے انتہائی فطری اور برجستہ انداز میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار رواں برس کے مئی میں بھارت اور پاکستان کے مابین مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ہوئے واقعہ کی وجہ سے ہوئی جنگ کے دوران کیا۔ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے مگر بھارت کے "گودی میڈیا" کی حماقتیں ہمارے بہت کام آئیں۔ "لاہور کے قریب بندرگاہ" کو دریافت کرنے کے بعد اس کو تباہ کرنے کے دعوے پاکستانیوں کو پھکڑ بازی کے مقابلے میں کھلامیدان فراہم کرتے رہے۔ پاک-بھارت جنگ کے تناظر میں ٹرمپ کے تکراری بیانات بھی دنیا کو یہ پیغام دیتے رہے کہ مئی کے مہینے میں ہوئی جنگ کے دوران بھارت نے پاکستان کے ہاتھوں سات یا آٹھ جدید اور مہنگے ترین جنگی جہاز تباہ کروائے تھے۔

اصولی طورپر پاک-بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے عوام کی تخلیقی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے بعد موجودہ حکومتی بندوبست کو ازخود "بیانیہ سازی" کی زحمت سے گریز اختیار کرلینا چاہیے تھا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ قوم کو "راہِ راست" پررکھنے کے لئے "مشوروں " کا سلسلہ جاری ہے۔ ان "مشوروں " پر کامل عملدآمد ہونے کے باوجود قومی ترجیحات واضح انداز میں لوگوں کے سامنے نہیں آرہیں۔ حکمرانوں کو یہ سمجھانا ناممکن ہے کہ بیانیہ سازی سے کہیں زیادہ ایک شے ہوتی ہے-Feel Good Factor- سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ عوام کا اطمینان بیانیہ سازی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ عوام کے عمومی اطمینان کے لئے اہم ترین کردار روزمرہّ اشیاء کی قیمتیں ادا کرتی ہیں۔ Cost of Living(زندگی گزارنے کی قیمت) اس تناظر میں کلیدی اختیار کرتی ہے۔

سرکاری طورپر میرے اور آپ جیسے دیہاڑی دار کو روزانہ یاد دلایا جاتا ہے کہ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 5فی صد ہے۔ دیہاڑی دار یا اس کی بیوی جب روز کی روٹی روز پکانے کے لئے سبزی ٹماٹر خریدنے جاتے ہیں تو 5فی صد کا دعویٰ مارکیٹ میں کارفرما نظر نہیں آتا۔ اس تناظر میں "ستھرا پنجاب" جیسے قابل قدر اقدامات بھی واجب ستائش سے محروم رہتے ہیں۔ فیض حمید کے خلاف اپنے دلوں کی بھڑاس نکال لینے کے بعد ہم صحافیوں کو نہایت توجہ سے اپنے شعبے پر نازل ہوئے عذاب کی حقیقی وجوہات دیانتداری سے ڈھونڈکرانہیں بیان کرنا ہوں گی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.