نوجوانی میں داخل ہوتے ہی جب پاکستان میں مائوزے تنگ کے چین میں برپا کئے انقلاب کو وطن عزیز میں دہرانے کی خواہش مچلنے لگی تو چینی انقلاب کے بانی کی چند تحریروں کا مطالعہ بھی ضروری ہوگیا۔ ان دنوں چینی سفارت خانے سے مائو کے لکھے مضامین اردو میں ترجمہ ہوکر چھوٹے کتابچوں کی صورت کتابوں کی چند دوکانوں کو وافر مقدار میں فراہم کئے جاتے تھے۔ مجھے خبر نہیں کہ یہ پراپیگنڈے کی خاطر تھوک کی طرح بوریوں میں بھرکر مفت بانٹے جاتے تھے یا کتب فروشوں سے قیمت کا تقاضہ بھی ہوتا۔ ان کتابچوں میں ترجمہ بہت سادہ اردو میں ہوتا اور آپ اسے ہتھیلی میں رکھ کر بآسانی پڑھ سکتے تھے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سامنے واقع مارکسی نظریات سے متعلق کتابیں چھاپنے اور بیچنے والوں سے میں نے نہایت سستے داموں یہ کتابیں خریدلیں۔ انہیں تفصیل سے پڑھنے کے بجائے کئی روز ان کے عنوان ہی ذہن پر خوب صورت شعر کی طرح چھائے رہے۔ ایک عنوان تو آج بھی اکثر یاد آتا ہے جو سیاسی قوت کا اصل سرچشمہ بندوق کو قرار دیتا تھا۔ بندوق اگرچہ مائوکی نگاہ میں کمیونسٹ گوریلوں کے ہاتھ ہی میں ہونا چاہیے تھی۔
ایک کتابچہ نے "عوام کے مابین تضادات" حل کرنے کے نسخے بھی بتائے۔ اسے پڑھنے سے قبل مجھے گماں تھا کہ "عوام" حکمران طبقات کے مقابلے میں ہمیشہ متحد و یکجا ہوتے ہیں۔ پریشان ہوکر مذکورہ کتابچے کو یہ جاننے کے لئے غور سے پڑھنے کی کوشش کی کہ عوام کے مابین تضادات کیوں اور کیسے جنم لیتے ہیں۔ سچی بات ہے بارہا کاوشوں کے باوجود ککھ سمجھ نہ پایا۔ مذکورہ کتابچہ پڑھتے ہوئے ایک لفظ البتہ دریافت کیا جس کا اردو ترجمہ نہیں ہوپایا تھا۔ اسے اردو میں "لمپن" ہی لکھا گیا۔ یہ جرمن زبان سے مستعار لیا لفظ ہے۔ سادہ زبان میں یہ مستقل روزگار سے محروم لوگوں کے رویے کو بیان کرتا ہے۔
یہ طبقہ کام چوری کو ترجیح دیتا ہے۔ عموماََ اس نوعیت کے افراد نامور غنڈے اپنے "سپاہیوں " کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ لاہور کے بارہ دروازوں کے اندر مستعمل زبان میں "لمپن" کو ویہلا (یعنی فارغ) پکارا جاتا تھا۔ یہ اکثر محلوں کے تھڑوں یا سردیوں میں گرم حماموں میں براجمان ہوتے۔ آتے جاتے کمزور گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں پر آوازیں کستے۔ لوگوں سے خواہ مخواہ جھگڑا مول لینا ان کا مشغلہ تھا۔ محلوں کی "خانہ جنگی" میں لوگوں پر "ٹہکا" جمانے کے شوقین افراد ان "ویہلوں" کو اپنے ڈیروں پر بٹھائے رکھتے۔ ان کی روٹی پانی اور سگریٹ وغیرہ کا خیال رکھتے۔ "لمپن" کی ان "ویہلوں " کے علاوہ اپنی عملی زندگی سے کوئی مثال ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔
وقت گزرنے کے ساتھ مزید کتابیں پڑھیں تو اپنے تئیں یہ خیال آیا کہ انگریزوں کے خلاف 1857ء میں ہوئی بغاوت کے دوران دلی کے شرفا جن "حریت پسندوں " سے گھبراکر گھروں میں دبک گئے تھے وہ اس دور کے "لمپن" تھے۔ دلی والوں نے انہیں "تلنگے" پکارا اور یہ لفظ لاہور کے لفنگوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
لمپن، ویہلوں اور تلنگوں کی یاد مجھے بنگلہ دیش میں اس نوجوان کے پراسرار قتل کے بعد پھوٹے فسادات کے بعد بہت شدت سے آئی جس نے حسینہ واجد کی حکومت گرانے کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ عثمان شریف ہادی 32 سال کا تھا۔ اسے نقاب پوشوں کے ایک گروہ نے مسجد سے نکلتے ہوئے قتل کردیا۔ بنگلہ دیش کے عوام کی اکثریت کا اصرار ہے کہ اسے بھارتی ایجنٹوں نے قتل کیا اور واردات کے بعد وہ بھارت ہی فرار ہوگئے ہیں۔ ہادی کے قتل کے بعد عوام کے جذبات بپھرگئے۔ بھارتی سفارت خانے کے باہر مظاہرے کی وجہ تو بآسانی سمجھ آگئی۔ مظاہرین کا ایک گروہ مگر بنگلہ دیش کے ایک مشہور انگریزی اخبار "دی سٹار" کو آگ لگانے چل پڑا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 1981ء میں پہلی بار ڈھاکہ صحافیوں کی ایک ورکشاپ میں حصہ لینے گیا تھا۔ وہاں کے انگریزی اخبارات دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ گھٹیا اخباری کاغذ پر بھارت سے آئی سستی سیاہی سے چھاپے ان اخباروں کی زبان مضحکہ خیز حد تک ناقص تھی۔ میں نے بہت احتیاط سے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ قوم پرستی کے جنون میں انگریزی زبان سکولوں میں بہت دیر سے پڑھائی جاتی ہے۔ بنگالی ہی کو اظہار کے ہر ذریعے کے لئے ترجیح دینے کا رحجان ہے۔ پہلے سفر کے ٹھیک دس برس بعد مگر ایک اور کانفرنس کے لئے ڈھاکہ گیا تو "دی سٹار" کا اجراء ہوچکا تھا۔ اس کی طباعت کے علاوہ زبان نے بھی خوب متاثر کیا۔ بعدازاں "دی سٹار" سے منسلک کئی صحافیوں سے شناسائی بھی ہوگئی۔
"دی سٹار" کو عموماََ لبرل اور ترقی پسند شمار کیا جاتا ہے۔ حسینہ واجد کی مگر مدح سرائی سے یہ اخبار گریز کرتا رہا۔ اپنے دورِ اقتدار کے آخری 8 سالوں میں شیخ مجیب کی بیٹی نے اس اخبار پر دبائو بڑھانے کے لئے کئی مقدمات قائم کئے۔ وہ جھکنے کو تیار نہ ہوا تو اس کے لئے سرکاری اشتہارات کاملاََ بند کردئیے گئے۔ حسینہ واجد کا مستند ناقد ہونے کے باوجود "دی سٹار" کی عمارت کا جلائے جانا اور وہاں وقوعہ کے دن 40کے قریب صحافیوں اور دیگر ملازمین کا اس کی عمارت کی چھت پر گھنٹوں چھپے رہنا مجھے پریشان کرگیا۔ اپنے فون میں بنگلہ دیشی صحافیوں کے فون اور ای میل وغیرہ ڈھونڈے۔
ان میں سے تین کے ساتھ رابطے کے بعد علم ہوا کہ حسینہ واجد کے بھارت فرار ہوجانے کے بعد سے "دی سٹار" مسلسل متنبہ کئے چلاجارہا تھا کہ سابقہ حکومت کے خلاف طلبہ کی جانب سے چلائی تحریک کو اب "لمپن" عناصر ہائی جیک کررہے ہیں۔ پولیس ان سے خوف کھاتی ہے۔ ایسے گروہ کچھ متمول گھرانوں کو یہ الزام لگاکر ان سے بھتہ لینا بھی شروع ہوگئے ہیں کہ وہ عوامی لیگ کے اب بھی دل سے وفادار ہیں۔ "دی سٹار" ثابت قدمی سے اپنی خبروں، تبصروں اور کالموں کے ذریعے اصرار کرتا رہا کہ بنگلہ دیش کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگے بڑھ کر جلد از جلد ریاست کی رٹ قائم کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہوا تو بنگلہ دیش آنے والے کئی برسوں تک مسلسل ابتری وانتشار کا شکار رہے گا۔
ہادی کے قتل کے بعد اس کے دفتر کا رخ کرنے والے گروہ کو یقیناََ "دی سٹار" کی یہ روش ناپسند تھی۔ وہ اسے سبق سکھانے نکل پڑے۔ ہادی کے قتل کی تفتیش اور اس میں بھارتی ایجنسیوں کاملوث ہونا "دی سٹار" پر ہوئے حملے کے بعد اب توجہ کا واحد مرکز نہیں رہا۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے سب سے مقبول بنگالی روزنامہ کی عمارت بھی جلادی گئی ہے۔
ہمارے ہاں کی آرٹس کونسل جیسی عمارتوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔ حملہ آور "ثقافت" کو ہندو ورثہ شمار کرتے ہوئے کٹر مسلمان ہونے کے دعوے کرتے رہے۔ چند صحافیوں سے گفتگو کے علاوہ میں نے بنگلہ دیش کے چند دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے بھی واٹس ایپ کے ذریعے گفتگو کی ہے۔ سب سے گفتگو کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ حسینہ واجد سے شدید نفرت کرنے والے بنگلہ دیشی بھی 1857کی دلی کے رہائشیوں کی طرح خود کو وحشی ہجوم کے روبرو بے بس والاچار محسوس کررہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے عارضی سربراہ ڈاکٹر یونس نوبل انعام یافتہ ہیں۔ ان کی کارکردگی سے مگر بنگلہ دیش کا متوسط طبقہ سخت ناخوش ہے۔ وہ انہیں تحفظ کا احساس فراہم کرنے میں مسلسل ناکام ہورہے ہیں۔ طلبہ تحریک کے جن رہ نمائوں نے حسینہ واجد کو بنگلہ دیش سے فرار ہونے کو مجبور کیا ان میں سے دو کے ساتھ میرے ایک دوست کے دیرینہ مراسم ہیں۔ ان کا خیال ہے کے حسینہ کے خلاف "جمہوری انقلاب" لانے والے چند طالب علم رہ نما بھی بے لگام ہوئے لمپن افراد کی حرکات سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں انہیں یقین نہیں کہ فروری میں ہونے والے عام انتخاب خیروعافیت سے ہوپائیں گے یا نہیں۔ ہو بھی گئے تو ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت ریاستی رٹ قائم کرپائے گی یا نہیں۔ بنگلہ دیش کا دل سے خیرخواہ ہوتے ہوئے ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ میرے ساتھ گفتگو کرنے والوں کے خدشات درست ثابت نہ ہوں۔