Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Aleema Khan Ke Dharno Ko Awami Tehreek Banane Ki Nakam Koshishen

Aleema Khan Ke Dharno Ko Awami Tehreek Banane Ki Nakam Koshishen

تحریک انصاف کی سیاست پر تبصرہ آرائی سے پرہیزکرتا ہوں۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ میں اس پر تنقید کرتے ہوئے پرانے حساب چکاتاسنائی نہیں دیناچاہتا۔ رات گئی بات گئی والے رویے کے ساتھ توجہ حال ہی پر مرکوز رکھنے کی خواہش ہے۔

اکتوبر 2011ء میں لاہور کے مینارِ پاکستان تلے اس تحریک کا نوجوانوں میں مقبول ترین سیاسی جماعت کی صورت احیاء ہوا تو میں پانی کے بہائو کے الٹ ہاتھ پائوں چلانا شروع ہوگیا۔ مقبولیت کی رونق میں تبدیلی کے دیے جلانے کے بجائے کرشماتی شخصیات کی عقیدت میں تشکیل پائی سیاسی تحاریک کی محدودات اور منفی رحجانات کے ذکر میں مصروف ہوگیا۔ بحث چل نکلی تو دلائل تک محدود نہ رہی۔

تحریک انصاف وطن عزیز کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کو اپنا بیانیہ فروغ دینے کے لئے نہایت منظم اور تخلیقی انداز میں استعمال کیا۔ نفرت سوشل میڈیا کے ذریعے "دشمنوں " کو دیوار سے لگانے میں کلیدی کردارادا کرتی ہے۔ میرے بیان کردہ تحفظات کا دلائل سے جواب دینے کے بجائے لہٰذا میرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں نقب لگاکر ایسی تصاویر نکالی گئیں جو مجھے "بدکردار" ثابت کرسکیں۔ بات وہاں ختم نہ ہوئی۔ تقریباََ15برس قبل ایک مشہور پراپرٹی ڈیلر سے پلاٹ اور لاکھوں روپے لینے کے "ثبوت" بھی "مشتری" کو ہوشیار کرنے کے لئے سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر نمایاں انداز میں پھیلادئیے گئے۔

بڑھاپے میں داخل ہونے سے قبل آتش کا چراغ ان دنوں ضرورت سے زیادہ پھڑپھڑارہا تھا۔ وضاحتیں دینے کے بجائے ضدی بچوں کی طرح "کہیے کہیے مجھے براکہیے"کی گردان کرتے ہوئے تحریک انصاف کی مزید تنقید میں مصروف ہوگیا۔ لطیفہ یہ بھی رہا کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ساتھ احمقانہ جنگ میں الجھنے کے باوجود میرے عمران خان سے ذاتی تعلقات باہمی احترام سمیت برقرار رہے۔ لاہور کی وجہ سے ہمارے کئی مشترکہ دوست بھی تحریک انصاف کے ساتھ میرے پھڈے سے پریشان رہتے۔ محلے کے اونترے منڈوں نے معاملات کو مگر بہتر نہ ہونے دیا اور بالآخر اگست 2018ء میں عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیا۔ ان کے حلف اٹھانے کے چند ہی ہفتوں بعد میں ٹی وی کا پہلا اینکر تھا جسے "مالی مشکلات" کی وجہ سے فارغ کردیا گیا۔ ٹی وی سکرینوں سے دیس نکالے کے بعد اس کالم کے ذریعے دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔

تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں مشکل وقت گزرنے کے باوجود اس کالم ہی میں اکتوبر2021ء کے بعد عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے کی گیم کے بارے میں لکھنا شروع ہوگیا۔ جو گیم لگائی جارہی تھی اس کے اشاروں کنایوں میں مسلسل ذکرکے ساتھ میں نہایت خلوص سے اس خدشے کا اظہار بھی کرتا رہا کہ اگر سابق وزیر اعظم کومحلاتی سازشوں کے ذریعے اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی تو وہ اپنے دعوے کے عین مطابق ہماری ریاست کے مستقل اداروں کے لئے "مزید خطرے ناک" ہوجائیں گے۔ اقتدار کے کھیل میں مصروف شاہزادوں کے پاس مگر دو ٹکے کے صحافیوں کے لکھے پر غور کا وقت نہیں ہوتا۔ وہ اپنے کھیل میں مست رہے اور اپریل 2022ء میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کردیا گیا۔

عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کردینے کے بعد قائم ہوئی حکومت معروضی انداز میں سیاسی منطق کا اتباع کرتی تو اسے فوری الیکشن کی طرف جانا چاہیے تھا۔ وہ مگر ملک کو "دیوالیہ" سے بچانے کی کاوشوں میں مبتلا ہوگئی۔ دریں اثناء قمر جاوید باجوہ بھی عمران خان سے "میر جعفر ومیرصادق" کی تہمت کا دھبہ لگوانے کے با وجود اپنے عہدے میں مزید توسیع کی ہوس میں وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا شروع ہوگئے۔ پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہوا اس نے عوام کی بے پناہ اکثریت کو کمرتوڑ مہنگائی کے سپرد کردیا۔ وہ عمران خان کی جگہ آئے لوگوں سے اپنی روزمرہّ زندگی کی پریشانیوں کی وجہ سے نفرت ہی محسوس کرسکتے تھے۔

تحریک انصاف نے اگر قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیے ہوتے تو مذکورہ نفرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنی جگہ آئے حکمرانوں کو بھی بالآخر ایک اور تحریک عدم اعتماد کی بدولت فارغ کرسکتی تھی۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجانے کے باوجود تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں برسراقتدار تھی۔ اسے چاہیے تھا کہ دونوں صوبائی حکومتوں کو ہر صورت برقرار رکھتی۔ طیش کے عالم میں لیکن دونوں صوبوں کی اسمبلیوں کو نئے انتخاب کی توقع میں قبل از وقت تحلیل کردیا گیا۔ میری دانست میں یہ تحریک انصاف کی غلط چالوں میں سے بدترین غلطی تھی۔

حالیہ تاریخ کے مزید حوالے اصل موضوع کی جانب آنے نہیں دیں گے۔ ماضی کو بھلاکر فی الفور حال کی جانب لوٹ آتے ہیں۔ حال پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ بانی تحریک انصاف کے اڈیالہ جیل جانے کے بعد سے تحریک انصاف اپنی صفوں میں سے کوئی ایسی کرشماتی شخصیت اجاگر نہیں کر پا ئی ہے جو عوامی تحریک کی بدولت اس جماعت پر نازل ہوئی مصیبتوں کا مداوا فراہم کرسکے۔ ماضی میں مقبول وزرائے اعظم محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار سے نکالے گئے تو عموماََ ان کی اہلیہ یا بیٹیوں نے سیاسی تحریک کو زندہ رکھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طویل جدوجہد کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں بیگم نسیم ولی خان کا کردار بھی یادرکھنا پڑتا ہے۔ 1999ء میں جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خوف میں دبکے نونیوں کو بیگم کلثوم نواز اور پانامہ پیپرز کے بعد آئی آفتوں کے دور میں مریم نواز شریف صاحبہ متحرک رہیں۔

تحریک انصاف مگر "موروثی سیاست" کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوئی تھی۔ وہ اپنے "اصولی موقف" بھلانے سے خوف کھاتی رہی۔ عمران خان نے اپنی اہلیہ کو سیاسی وارث ڈیکلرنہیں کیا۔ محترمہ بشریٰ مانیکا کی وجہ سے مگر 26نومبر2024ء کی شام تحریک انصاف کے کارکنوں کا ایک پرجوش گروہ اسلام آ باد داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔ حکومت کو اسے منتشر کرنے کے لئے ریاستی جبر کی انتہائوں کو چھونا پڑا۔ اس کے بعد سے تحریک انصاف ابھی تک سنبھل نہیں پائی ہے۔

موجودہ حکومتی بندوبست سے "عوامی تحریک" کے ذریعے نجات پانے کے لئے میری دانست میں سوچی سمجھی حکمت عملی کے بغیر بانی تحریک انصاف کی بہنیں ہر منگل کے دن راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی طرف جاتی سڑک پر اپنے بھائی سے ملاقات کا تقاضہ کرتے ہوئے کسی مقام پر پولیس کی جانب سے روک دی جاتی ہیں۔ اصولی طورپر جیل میں بند بھائی سے ہر ہفتے ملاقات ان بہنوں کا حق ہے۔ اقتدار کی خاطر برپا کی جنگ میں "اصول" مگر کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان اپنے بھائی کے ساتھ جیل میں ہوئی ملاقات کو ریاست کے مقتدر اداروں کے خلاف منافرت بھڑکانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ہر ملاقات کے بعد عمران خان کے نام سے مستند گردانے سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم پر بنائے ایک اکائونٹ کے ذریعے ریاست کو للکارا جاتا ہے۔ معاملہ لہٰذا "بہنوں کی بھائیوں کے ساتھ ملاقات" تک محدود نہیں رہا۔ اسے روکنا ریاست وحکومت کے لئے ضروری ہوگیا ہے۔

عمران خان کی بہنیں اگرچہ اپنی ضد پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ ہر منگل کو اڈیالہ جیل جانے والی سڑک پر بھائی سے ملاقات کا تقاضہ کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ بہنوں کی اڈیالہ جیل کے باہر لگائی "رونق" بتدریج قانون تقلیلِ افادہ کا شکار ہورہی ہے۔ پیمرا کے بنائے قواعد وضوابط کے تحت چلائے ٹی وی چینل منگل کے دن بہنوں کے ا ڈیالہ روڈ پہنچ جانے کا سرسری تذکرہ ہی کرسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کئی گھنٹوں تک مگر "سٹیزن جرنلزم" کی بدولت بہنوں کی اڈیالہ روڈ پر سرگرمیاں لمحہ بہ لمحہ رپورٹ ہوتی رہتی ہیں۔ جو رپورٹنگ ہوتی ہے اس کا بنیادی ہدف عاشقانِ عمران خان کو اس امرپر اُکسانا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے قائد کی بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے اڈیالہ روڈ پہنچ جائیں۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا۔ دوہفتے قبل منگل کی رات گزرجانے کے بعد بدھ کا آغاز ہوتے ہی رات کے ایک سے ڈیڑھ بجے کے درمیان بہنوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے جمع ہوئے کارکنوں کو ٹھنڈے پانی کی بوچھاڑ سے منتشر کردیا گیا۔ پچھلے ہفتے منگل کی رات پانی کو دوبارہ برسانے اورموقع پرموجود کارکنوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ دو سو سے زیادہ نامعلوم افراد کے خلاف بھی "پلس مقابلے" کی ایف آئی آر درج کرلی گئی۔

"نامعلوم" کے ایف آر میں ذکرکے خوف سے گزرے منگل کی شام اڈیالہ روڈ پر بانی تحریک انصاف کی بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے ڈیڑھ سو سے زیادہ کارکن جمع نہ ہوپائے۔ اڈیالہ روڈ پر بہنوں کا دھرنا لہٰذا "عوامی تحریک" بھڑکانا تو دور کی بات ہے اسے سلگانے میں بھی ناکام ہورہا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے تحریک انصاف کو طویل باہمی مشاورت سے حکومت کو خوف میں مبتلا رکھنے والی اپوزیشن کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے کوئی نئی حکمت عملی تیار کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.