Tuesday, 20 May 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Najam Wali Khan
  4. Sarkon, Nehron Ke Mukhalif Ho?

Sarkon, Nehron Ke Mukhalif Ho?

یہ 2017ء کا مئی یا جون کا مہینہ تھا جب اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف سینئر صحافیوں کے ساتھ لاہور کے گورنر ہاؤس میں آف دی ریکارڈ تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ وہاں جناب مجیب الرحمان شامی، ستارہ امتیاز سلمان غنی، ضیاء شاہد مرحوم، عارف نظامی مرحوم اور دیگر کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ یہ وہ دن تھے جب فیض حمید اور ثاقب نثار پاناما کے نام پر انہیں نااہل کرنے کی سازش عروج پر لے جا چکے تھے۔

میاں نواز شریف اس دور میں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے جیسے اپنے بڑے کارنامے بتا رہے تھے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جب نوے کی دہائی کے آخر میں انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے بنائی وہ صرف چالیس ارب روپوں سے بنی تھی اور اب موٹرویز کی دیکھ بھال کے ٹھیکے ہی اس سے زیادہ کے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کیا کہ چالیس ارب روپے کے اس پراجیکٹ میں چارسو ارب روپوں تک کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔

ان کی بات کے دو مطلب تھے، پہلا یہ کہ ہر وہ تعمیراتی کام جو ہوجائے وہی بہتر ہے ورنہ اس کی کاسٹ بڑھتی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ آپ جتنی مرضی کم لاگت سے تعمیراتی منصوبہ مکمل کر لیں، بدخواہ اس میں بھی کرپشن کے الزامات لگا دیں گے کیونکہ دنیا کا آسان ترین کام الزام لگانا ہے اور اس کے مقابلے کام کرنا مشکل ترین ہے۔ ساتھ ہی یاد آیا کہ لاہو ر میں بننے والی پہلی میٹرو بس ستائیس، اٹھائیس ارب روپے میں بنا لی گئی تھی مگر اسے جنگلہ بس کہا گیا، اس پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے مگر جب اس کے مقابلے میں خیبرپختونخوا میں بی آر ٹی بنی تو اس کا بجٹ چار سے چھ گنا تک زیادہ تھا اور خدمات کا معیار اس سے کہیں کم۔

مجھے تعمیراتی کاموں کی مخالفت کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو انتہائی نااہل اور نکما سمجھتا تھا مگر اس کے باوجود اس کی تعریف میں صرف ایک کالم لکھا جو لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے قریب دو موریہ پل کے ساتھ فلائی اوور کی تعمیر یا فردوس مارکیٹ کے قریب انڈر پاس پر تھا کہ سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں یہ شہر، یہ صوبے اور یہ ملک تو ہمارے ہیں، اس کی تعمیر و ترقی پر کیسا اختلاف مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ڈویلپمنٹ کی مخالفت کرتا ہے۔

مجھے تو اس وقت خوشی ہوتی ہے جب میں پیپلزپارٹی کو تھر کے لوگوں کے لئے کام کرتا ہوا دیکھتا ہوں، وہاں خواتین کو بھاری مشینری چلاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ ابھی چند روز پہلے وزیراعظم شہبازشریف نے ایک انقلابی فیصلہ کیا، ایسا ہی انقلابی فیصلہ جیسا وہ ہمیشہ سیاست کی بجائے ریاست کو بچانے کے لئے کرتے ہیں، ذاتی اور سیاسی کی بجائے عوامی اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہیں۔ فیصلہ یہ تھا کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بلوچستان کے عوام کو پہنچایا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کے کافی عرصہ سے چلے آنے والے نرخ برقرار رکھ کے بچت سے چمن، قلات، خضدار، کوئٹہ اور کراچی کی سڑک کو موٹرویز کے معیار پر ڈوئل کیرج وے بنا دیا جائے۔ سڑکیں، کسی بھی ریاست اور علاقے میں خون کی رگوں کی طرح کام کرتی ہیں۔

وزیراعظم بتا رہے تھے کہ یہ سڑک خونی سڑک کے نام سے مشہور ہے اور ناقص تعمیر ہونے کی وجہ سے دو ہزار جانیں لے چکی ہے۔ بہت سارے لوگوں نے کی مخالفت کی اور میں نے اس کی حمایت۔ میں نے سوچا کہ میں کافی عرصے سے اسی قیمت پر پٹرول ڈلوا رہا ہوں اور اب اگر ایک ڈیڑھ ماہ مزید اسی پرائس پر ڈلوا لوں گا تو میں غریب نہیں ہوجائوں گا مگر بلوچستان کو ایک بہترین سڑک مل جائے گی جو بلوچستان کے عوام کے لئے سفری سہولتوں ہی نہیں بلکہ تجارت میں بھی معاون ہوگی جیسے لاہور اسلام آباد کی موٹروے نے سرگودہا، چکوال اورمیانوالی تک کے علاقوں کی قسمت بدل دی۔

میں نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو نئی نہروں کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھا تو حیرت میں ڈوب گیا۔ میرے خیال میں بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان اور اسی طرح مراد علی شاہ اور علی امین گنڈا پور میں فرق ہونا چاہئے۔ پیپلزپارٹی اس سے پہلے موٹرویز کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ربع صدی کے بعد وہ آج خود سندھ میں موٹروے بنانے کے لئے وفاقی حکومت سے پھڈا کر رہی ہے۔

مجھے اس پر خوشی ہوئی کہ چاہے پچیس تیس برس بعد ہی سہی مگر پیپلزپارٹی کو موٹروے کی اہمیت کا پتا تو چلا اوراسی طرح پی ٹی آئی کو میٹرو بس سروس کی اہمیت کا عشروں بعد پتا چلا تھا۔ میں حیرت میں اس لئے ڈوبا کہ بلاول بھٹو زرداری کراچی گرامر سکول، فروبلز انٹرنیشنل سکول اسلام آباد کے بعددبئی کے راشد پبلک سکول اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ چرچ کالج کے پڑھے ہوئے ہیں، انہوں نے تاریخ اور سیاسیاست میں بی اے آنرز کی ڈگری لی اور اسی طرح مراد علی شاہ قائد اعظم سکالر شپ پر سٹینفورڈیونیورسٹی کیلیفورنیا سے سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک سسٹمز کی دو ماسٹر ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں اور اگر یہ دونوں اتنے جدید انفراسٹرکچر والے ملکوں کی جدید ترین جامعات میں پڑھ کر بھی پاکستان میں نہروں کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر یہاں تعمیر و ترقی کی حمایت کون کرے گا؟ اس سے پہلے پیپلزپارٹی کالاباغ ڈیم کی تعمیر روک کے آٹھ ملین ایکٹر فیٹ پانی اور ہزاروں میگا واٹ سستی بجلی کا راستہ روک چکی ہے۔

جاہل، متعصب اور ملک دشمن تو سڑکوں اور نہروں کی مخالفت کر سکتے ہیں مگر پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے پڑھے لکھے اور محب وطن بھی ایسا کریں گے، میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ معذرت کے ساتھ، میں نے اس قسم کی روایات بلوچ سرداروں میں دیکھی ہیں کہ ان کے بچے آکسفورڈ اور ہارورڈ سے پڑھ کے آتے ہیں اور واپسی کے بعد وہ اپنے باپ دادا اور پردادا جیسے ہی سردار بن جاتے ہیں۔ تعلیم ان کا کچھ نہیں بگاڑتی۔

میں نہروں کے معاملے پر صوبوں کے موقف پر اس لئے نہیں جانا چاہتا کہ اس پر ملکی آئین اور باہمی معاہدے پوری واضح ہیں۔ کوئی بھی صوبہ اپنے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ اس پر دوسرے کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پنجاب اپنے حصے کا پانی چولستان کو آباد کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے تو کسی دوسرے کو اس پر تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ پنجاب جانے اوراس کا پانی جانے۔

نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ پی پی پی والے بھی تارے زمین پر، ہیں یعنی سلو لرنرز ہیں۔ انہیں موٹرویز اور میٹروز کی سمجھ بھی عشروں بعد آتی ہے تونہروں کی سمجھ بھی بعد میں آجائے گی۔ ہمیں ان سے لڑنا نہیں چاہیے بلکہ ان سے ہمدردی کرنی چاہیے، ان پر ترس کھانا چاہیے کہ بھلا کوئی پڑھا لکھا اور ہوش والاآج کے دور میں بھی سڑکوں اور نہروں جیسے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کی مخالفت کر سکتا ہے؟