Friday, 26 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Khalid Mahmood Faisal
  4. Syed Maududi Ka Bani e Pakistan Ko Khiraj e Aqeedat

Syed Maududi Ka Bani e Pakistan Ko Khiraj e Aqeedat

بیسویں صدی میں برصغیر کے افق پرجن دو بڑی شخصیات کو بڑی پذیرائی ملی، وہ علمی، اخلاقی، تہذیبی، سیاسی، فکری انتظامی اعتبار سے وہ بڑی ہی قد آور تھیں، ان کاکردار شیشے کی طرح صاف اور شفاف تھا، ایسی بارعب ہستیوں نے اس خطہ پر اپنی قابلیت کے نہ صرف اَن مٹ نقوش چھوڑے بلکہ عالمی سطح بھی اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوایا، ایک نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نئی مملکت کے قیام کی خاطر شبانہ روز محنت کی، نگر نگر گھوم کر الگ وطن کے حصول کے لئے مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی لہرپیدا کی۔

سب کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کیا، بغیر جنگ وجدل اور چند سال کی سیاسی جدوجہد، محنت شاقہ کے بعد دنیا کے نقشہ پر نئی اسلامی ریاست کو قائم کرکے پورے عالم کے اہل دانش کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، اس دوران نہ اپنی صحت کی پروا کی، نہ خاندانی کاروبار پر توجہ دی، نہ ہی ذاتی منفعت کے لئے اپنے پروفیشن کو عزیز رکھا، تاریخ اور سیاست کی دنیا میں یہ معتبر ہستی بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام سے جانی جاتی ہے، دوسرے نامور مذہبی سکالر، مصنف، محقق، بانی جماعت اسلامی سید مودودی تھے، ایک نے اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی تو دوسرے نے اسلامی ریاست کا مکمل خاکہ پیش کیا۔

سید مودودیؒ نے بانی پاکستان قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ماہنامہ ترجمان القرآن میں رقم کیاکہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا مرکز و محور جو شخصیت بنی رہی، انکی راہنمائی پر سب کو بھروسہ تھا، ان کے ذاتی اثر رسوخ نے مسلمانوں کو ایک متحد قوم بنا دیا، انھیں کے اعتماد پر قوم نے اپنی پوری طاقت لگا دی، جس کے نتیجہ میں آخر کار پاکستان قائم ہوگیا، قیام پاکستان کے بعد اس مملکت کی عمارت جس مضبوط ستون کے سہارے پر تعمیر ہوئی تھی وہ بھی انہی کی جامع اور معتمد شخصیت تھی، ان کے بعد کوئی دوسرا فرد بلکہ پورا گروہ بھی ہمارے درمیان ایسا موجود نہیں ہے جس سے لوگوں کو محبت ہو، جسکا احترام دلوں میں جاگزیں ہو، جس کے اخلاص اور تدبر، عزم و ہمت پر سب کو اعتماد ہو، ملک کے اندر ہی نہیں باہر بھی پاکستان کی جو کچھ ساکھ اور دھاک تھی وہ زیادہ تر اسی آزمودہ کار مدبر کی بدولت تھی، ان کے وقار اور تدبر کو بین الاقومی برادری میں اس درجہ بھروسہ اور اعتبار سے دیکھا جاتا ہو، مجھے کوئی دوسری ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ اُس دور میں روئے زمین پر مسلمانوں کی سب سے بڑی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، باوجود اس کے انہیں بیک وقت انگریزوں، سکھوں، ہندووں کی شدید مذاحمت اور مخالفت کا سامنا رہا، ہر ایک قیام پاکستان کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے بانی پاکستان کو اپنے مقصد میں کامیاب فرمایا اور مخالفین کی متحدہ قوت ان کے مقابلہ میں بے بس ہوگئی، انکی عدیم النظیر کامیابی کے چند وجوہ تھے، ان میں سے ہر ایک میں ہمارے لئے بھی سبق ہے۔

پہلی بات یہ کہ جب قرار داد پاکستان پاس ہوگئی، بعد ازاں ہندوہستان تقسیم ہوا، تو قائد اعظم نے بعض سیکولر اور سوشلسٹ عناصر کے علی الرغم اس بات کا غیر مبہم اعلان کر دیا کہ پاکستان میں اسلام کا اجتماعی نظام قائم کیا جائے گا اور مذکورہ عناصر کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی روش سے دست کش ہوجائیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو خطہ پاکستان سے دور دراز بستے تھے، وہ بھی اخوت اسلامیہ کے جذبہ سے سرشار ہو کر قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہو گئے۔

قائد اعظم کی کی کامیابی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کی گالیوں، الزام تراشیوں کو کبھی درخود اعتنا نہ سمجھا اور نہ ہی ان کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع کیا، اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر مستقل مزاجی سے پیش قدمی کرتے رہے، جس انسان کو بھی دنیا میں کوئی مثبت تعمیری کام کرنا ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس طریقہ پر عمل کرے، زندگی کی مہلت کو مفید اور نتیجہ خیز مصرف میں صرف کرے۔

بانی پاکستان کی سیرت کی تیسری خوبی یہ تھی کہ وہ ایک جمہوریت پسند انسان تھے، انہوں نے ہمیشہ اپنے رفقاء سے مشورہ اور ان کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے کام کیا اور پاکستان میں جمہوری نظام کی تشکیل کو پیش نظر رکھا۔

پاکستان میں بعض لوگوں نے اثبات جرم کے بغیرشہری آزادیاں سلب کرنے والے سیفٹی ایکٹ کی قسم کے قوانین کو رائج رکھنا چاہا تو انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں جن مغضوب قوانین کے خلاف انگریز کی اسمبلی میں آواز اٹھاتا رہا ہوں، اب میں انہیں حیات نو کا پروانہ کیسے دے سکتا ہوں۔

سید مودودیؒ نے بانی پاکستان کی وفات کے بعد کہا کہ ہمارے لئے اہم سوال یہ ہے ہم کوئی اجتماعی مقصد رکھتے ہیں جو افراداور قبائل، خاندانوں، طبقات کے جداگانہ مقاصد کو کھا جائے، سب مل کر بڑے مقصد کے لئے اپنا تن من دھن لگا دیں، یا کوئی ایسا مرکزی تخیل رکھتے ہیں جو ہمارے مختلف عناصر کے احزابی تخیلات پر غالب آجائے سب کو اپنی مقناطیسیت سے جوڑ کر ایک وحدت بنا دے جن کی اتباع سے ہم اپنی قومی حیات کو عدل و انصاف، تعاون و تناصر، ترقی و تقدم کی پائیدار بنیادوں پر قائم کر سکیں، اگر یہ چیزیں ہمارے پاس محفوظ ہیں تو مطمئن رہنا چایئے کہ پاکستان مستحکم ہے، لیکن دیانتاً ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا بحیثیت مجموعی فقدان ہے، یاکم از کم قلت ہے تو سب سے پہلے ہمیں یہ فکر ہونی چایئے کہ انہیں پیدا کریں اور نشوونما دیں کیونکہ اب وہ شخصیت ہمارے درمیان موجود نہیں رہی ہے کہ جس کی جاذب اور متحرک طاقت ان کے فقدان کی کسی حد تک تلافی کر رہی تھی۔

قائداعظمؒ نے تو اپنا فرض انتہائی دیانت داری سے پوراکرتے ہوئے آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا، آئین، قانون پر عدم عمل درآمد سے اگر عوام کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے یا وہ مایوس ہیں تو اِس کے ذمہ دار وہ ارباب اختیار ہیں، جن کے ہاتھوں میں بانی پاکستان نے ریاست کی باگ ڈور دی تھی۔

سید مودودیؒ نے بانی پاکستان کو خراج عقیدت جب پیش کیا اُس وقت سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما نہیں ہوا تھا، بانی پاکستان کے یوم ولادت پریہ سانحہ قوم کے زخم تازہ کر دیتا ہے جس کا بڑا سبب قائد اعظم کی سیرت اور اُصول پسندی سے رو گردانی ہے، تاہم اطمینان کہ اس میں ملوث کردار اپنے انجام کوپہنچے، نشان عبرت اورعوامی غضب کے معتوب بنے، ہر عہد کے حکمرانوں کے لئے اس میں ایک پیغام پنہاں ہے تاہم قائد اعظمؒ کی شخصیت کے راہنماء اصول، کردار، بصیرت، سیرت قومی سیاسی قیادت کے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں۔