Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Lashen Sirf Civilians Ki Girti Hain

Lashen Sirf Civilians Ki Girti Hain

ہجوم دیوار توڑ کر چھاؤنی کے اندر داخل ہوگیا، ان کے ہاتھ میں ڈنڈے، اینٹیں اور پتھر تھے، ایک آدھ نوجوان کے پاس پستول اور رائفل بھی تھی، وہ چھاؤنی کی سڑکوں پر دوڑ رہے تھے، گالی گلوچ کر رہے تھے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، سامنے چھاؤنی کا راشن ڈپو تھا، نوجوان ڈپو میں داخل ہوگئے اور انھوں نے آٹے، دال اور چینی کے توڑے لوٹنا شروع کر دیے، وہ گھی کے ڈبے اور کنستر بھی اٹھا کر دوڑ پڑے، فوجی جوان سائیڈ پر کھڑے ہو کر خاموشی سے دیکھتے رہے، ایک آدھ نوجوان نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ہجوم میں موجود سمجھ دار لوگوں نے ان کا ہاتھ روک لیا، یہ کھیل آدھ گھنٹہ تک چلتا رہا، اچانک ایک وائرلیس کال آئی۔

فوجی جوان سیدھے ہوئے اور میگا فون پر وارننگ دے دی، مظاہرین چند لمحوں کے لیے رکے لیکن پھر دوبارہ لوٹ مار میں مصروف ہو گئے، جوانوں نے اس کے بعد ہوائی فائرنگ شروع کر دی، لوگ ٹھٹکے اور ان میں سے سمجھ دار لوگ فوری طور پر بھاگ کر باہر چلے گئے لیکن جذباتی اور ناتجربہ کار ابھی تک باز نہ آئے اور پھر اس کے بعد رائفلیں سیدھی ہوئیں اور پانچ منٹ میں چھاؤنی مکمل طور پر خالی تھی، ہجوم گھی کے ڈبے اور آٹے، چینی اور دالوں کی بوریاں بھی سڑکوں پر پھینک کر بھاگ گئے تھے اور پھر دو گھنٹے بعد وہاں ٹوٹے ڈنڈوں، بکھری اینٹوں اور پتھروں کے سوا کچھ نہیں تھا۔

یہ منظر 19جولائی بنوں کا تھا، بنوں میں ہزاروں لوگوں نے چھاؤنی پر یلغار کر دی تھی، سوشل میڈیا پر اس یلغار کو انقلاب کا نام دیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی عوام فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یہ کوشش 9 مئی 2023کو بھی کی گئی، پاکستان کے 200 دفاعی مقامات پر حملہ ہوا، خوف ناک توڑ پھوڑ ہوئی اور اس سے زیادہ خوف ناک سوشل میڈیا کمپیئن کی گئی لیکن دونوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ بنوں میں پانچ منٹ میں چھاؤنی خالی تھی اور ایک لاکھ لوگ کہاں چلے گئے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی جب کہ 9 مئی کے بعد 11 مئی آئی اور پورا ملک کھلا ہوا تھا اور بقول عمران خان 10 ہزار لوگ گرفتار ہو چکے تھے۔

ان میں سے نوے فیصد معافی نامہ لکھ کر گھر واپس آ گئے تھے جب کہ باقی 15 ماہ سے جیلوں میں ہیں اور دنیا بھر کی میڈیا کمپیئن، امریکی ایوان نمایندگان کی تاریخی قرارداد اور عدالتوں کے فیصلوں کے باوجود ان کے باہر آنے کے کوئی آثار نہیں، عمران خان نے بھی 8 فروری کے الیکشن میں معجزاتی کام یابی حاصل کی، یہ 98 فیصد مقدمات میں رہا بھی ہو گئے اور انھیں مکمل ضمانتیں بھی مل گئیں، ان کی پارٹی کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پارلیمانی تسلیم کر لیا اور آئین میں گنجائش پیدا کرکے پارٹی کو وہ سہولتیں بھی دے دیں جو اس نے مانگی ہی نہیں تھیں مگر اس کے باوجود عمران خان آج بھی جیل میں ہیں اور پارٹی اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہی ہے اور بظاہر دونوں کے لیے ریلیف کا کوئی چانس نہیں، یہ حقائق کیا ثابت کرتے ہیں؟

یہ ثابت کرتے ہیں پاکستان جیسے ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ بہرحال تگڑی ہوتی ہے اور یہ اگر کوئی چیز ٹھان لے تو پھر وہ ہو کر رہتا ہے خواہ اس کی قیمت بنگلہ دیش کی شکل میں ہی اداکیوں نہ کرنی پڑے چناں چہ یہ غلط فہمی ہے عمران خان ریاست کو لٹا لیں گے یا یہ چھاؤنیوں پر حملہ کرکے ان پر قابض ہو جائیں گے، فوج کا کسی بھی صورت میں کچھ نہیں بگڑے گا، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ شام، لیبیا اور عراق کی مثال لے لیں، ان تینوں ملکوں میں کیا کیا نہیں ہوا؟ ملک مٹی کاڈھیر بن گئے، لاکھوں لوگ مر گئے لیکن کسی چھاؤنی پر قبضہ ہوا، کسی جنرل کا ٹرائل ہوا اور نہ کسی آرمی چیف کو سزا ہوئی، مجھے شام، عراق اور لیبیا میں جانے کا اتفاق ہو چکا ہے، آپ یقین کریں خانہ جنگی کے دوران بھی چھاؤنیاں محفوظ تھیں، شہروں کے اندر ہزاروں سویلینز کی لاشیں پڑی تھیں مگر چھاؤنی کے اندر مکمل امن تھا لہٰذا آپ یہ یاد رکھیں ہم جس انقلاب کو عوامی سمجھتے ہیں اس میں صرف سویلین مرتے ہیں، فوجیں محفوظ رہتی ہیں۔

آپ غزہ کی بھی مثال لے لیں، وہاں لاکھ لوگ مر چکے ہیں، پورے علاقے میں کوئی عمارت محفوظ نہیں مگر حماس کے فوجی اس عالم میں بھی محفوظ ہیں، ان کی بجلی بند ہوئی، اسپتال تباہ ہوئے اور نہ اسلحہ ڈپوؤں پر قبضہ ہوا، کیوں؟ کیوں کہ فوجیں سرکاری ہوں یا غیرسرکاری یہ اپنی حفاظت کرنا جانتی ہیں، ان کی پہلی ٹریننگ ہی اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے لہٰذا یہ خوف ناک ترین حالات میں بھی اپنے آپ کو بچالیتے ہیں، آپ 1971 کی مثال بھی لے لیجیے، پاکستان ٹوٹ گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے قبضے میں چلے گئے لیکن آخر میں سرینڈر کرنے والاجنرل نیازی بھی واپس آیا، اسے تمام مراعات بھی ملیں اور وہ آج بھی لیفٹیننٹ جنرل امیرعبداللہ خان نیازی کہلاتا ہے، نوے ہزار فوجی بھی زندہ سلامت بھارت سے واپس آئے، سروس جوائن کی اور مکمل فوجی کیریئر اور پروموشنز کے ساتھ ریٹائر ہوئے جب کہ مشرقی پاکستان میں ہزاروں سویلینز ایک دوسرے سے لڑلڑ کر مر گئے، بنگلہ دیش میں آج بھی ان کی اجتماعی قبریں اور یادگاریں موجود ہیں چناں چہ پھر اس انقلاب کا نقصان کس کو ہوا؟ فوج یا سویلینز کو! ۔

ہماری آج کی صورت حال بھی اس سے ملتی جلتی ہے، یہ یاد رکھیں ہمارا ایشو لوکل نہیں ہے، بین الاقوامی ہے، عمران خان کی شکل میں مغربی دنیا اور بھارت کو ایک ایسا شخص مل گیا ہے جو دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور کو دنوں میں مٹی کا ڈھیر بنا سکتا ہے جس کے ذریعے یہ اس ملک کو تین چار ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتے ہیں چناں چہ یہ ملک صورت حال کا جی بھر کر فائدہ اٹھا رہے ہیں، دوسرا پاکستان چین اور امریکا کا جنگی میدان ہے، یہ دونوں ہماری لاشوں پر اپنی اپنی کام یابی کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں اور تیسرا بھارت کے ہاتھ جنگ کے بغیر پاکستان کو تباہ کرنے کا موقع آ چکا ہے اور یہ بھی اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ عوام اور پاکستان تحریک انصاف اسے انقلاب سمجھ رہی ہے، ہم اسے حقیقی آزادی سمجھ رہے ہیں، اصل حقیقت یہ ہے ہم حقیقی آزادی کے بجائے مکمل غلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

آج ہمارے بجلی کے بلوں اور دودھ پر ٹیکس کا فیصلہ آئی ایم ایف کر رہا ہے کل جب گلیوں میں لاشیں پڑی ہوں گی اور پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوگا تو ہم اس وقت دن میں ایک گھنٹہ بجلی اور پانچ لیٹر پٹرول کے لیے دنیا بھر کے تمام مطالبے مانیں گے، آپ تسلیم کریں یا نہ کریں مگر ہم شام، عراق اور لیبیا بن چکے ہیں بس اعلان باقی ہے، بس عمران خان کا باہر آنا باقی ہے اور کراچی سے لے کر طورخم بارڈر تک آگ ہی آگ، ڈنڈے ہی ڈنڈے اور لاشیں ہی لاشیں ہوں گی اور اس کشت وخون میں اگر کسی کا نقصان نہیں ہوگا تو وہ فوج ہوگی، فوج چپ چاپ چھاؤنیوں میں بیٹھ جائے گی اور کوئی اس طرف رخ نہیں کرے گا، عوام ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو کر ملک تباہ کر دیں گے اور لاشیں سمیٹنے والے لوگ بھی نہیں ہوں گے۔

ہم تباہی کے گڑھے کے اندر بیٹھے ہیں لیکن افسوس کسی شخص کو اس کا احساس تک نہیں، ہمیں اس ہول ناک صورت حال سے صرف دو چیزیں بچا سکتی ہیں، ہم پارلیمنٹ اور آئین کو باپ مان لیں، قومی اسمبلی میں موجود تمام پارٹیاں ایک بار اکٹھی بیٹھ کر آئین پر دوبارہ حلف لے لیں اور آیندہ آئین سے باہر نکل کر کوئی بھی حرکت نہ کریں، سپریم کورٹ بھی آئین کے تابع ہو جائے اور ارکان اسمبلی بھی، عمران خان سے مذاکرات کریں، موجودہ سسٹم کے لیے وقت لیں، بے شک دو سال کا وقت لے لیں اور 2026میں شفاف الیکشن کرا کر سسٹم سیدھا اور صاف کر لیں، سیاسی مقدمے نہ بنانے کا حلف بھی لے لیں، آرمی چیف اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں ایک ہی بار اضافہ کر دیں اور اس کے بعد ایکسٹینشن پر مکمل پابندی لگا دیں، یہ فیصلہ کرلیں دنیا میں اگر تیسری عالمی جنگ بھی ہو جائے گی تو بھی ایکسٹینشن نہیں ہوگی۔

وزیراعظم بھی دو مرتبہ سے زیادہ وزیراعظم نہ بن سکے، پارٹیوں کے اندر بھی اصلاحات کریں اورانھیں بھی آئین کا حصہ بنائیں، میں خود میڈیا پرسن ہوں، میں نے تعلیم بھی میڈیا کی حاصل کی تھی اور میں اس پروفیشن کا بینی فیشری بھی ہوں لیکن میں دل سے سمجھتا ہوں اس میڈیا اور اس سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے ملک نہیں چل سکتا، جب جسٹس اطہر من اللہ نیویارک میں کھڑے ہو کر اعتراف کرتے ہیں ججزایک ٹیلی ویژن چینل کی وجہ سے 9 اپریل 2022کی رات بارہ بجے عدالت کھولنے پر مجبور ہو گئے تھے تو پھر پیچھے کیا بچ جاتا ہے؟ ہمارے ملک میں عدالتیں تک میڈیا سے متاثر ہوتی ہیں، یہ رات بارہ بجے لگ جاتی ہیں چناں چہ میڈیا کی ریفارمز بھی ضروری ہیں اور آخری مشورہ ملک کی ایک فیصد ایلیٹ صرف پانچ سال کے لیے اپنا انٹرسٹ قربان کر دے، آئی پی پیز کیپسٹی چارجز معاف کر دیں۔

سرمایہ کار پورا ٹیکس دے دیں اور پریشرگروپ سڑکیں بند نہ کرنے کااعلان کر دیں تو ہم بچ جائیں گے ورنہ اللہ معاف کرے ہم بمشکل ایک سال نکال سکیں گے جس دن فوج نے بیرکس میں واپس جانے اور ملک کو اللہ کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا، اس دن لوگ ایک دوسرے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے، پی ٹی آئی کے لوگ ن لیگ پر حملہ کر دیں گے اور فرقہ پرست ایک دوسرے کی مسجدوں اور جماعت خانوں پر قبضہ کر لیں گے اور اس کے بعد ہم چند دنوں میں شام، عراق اور لیبیاہوں گے اور اس میں نقصان کس کا ہوگا؟ صرف اور صرف عوام کا ہوگا کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے خانہ جنگیوں میں لاشیں صرف سویلینز کی گرتی ہیں، فوجوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا، سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بھی فوج اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.