Monday, 09 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Irfan Siddiqui
    4. Pti Aur Mamool e Nao

    Pti Aur Mamool e Nao

    اپریل 2022ء میں، تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے محرومِ اقتدار ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کے سامنے ایک راستہ تو وہی تھا جو جمہوری فکر کی حامل، سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والی بالغ فکر جماعتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ وہ سیدھے سبھائو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتی۔ صرف دو ووٹوں کی برتری سے قائم، معجونِ مرکب جیسی مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھتی اور سائفر جیسے ناٹک رچانے اور فوج کو نشانے پر رکھ لینے کے بجائے تحمل اور استقامت کے ساتھ انتخابات کی طرف پیش قدمی کرتی۔

    گذشتہ تین برس میں، اس کے سفر کو ایسا سفرِ رائیگاں قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ قومی سیاست کی ایسی داستانِ عبرت بن چکی ہے جس کے ہر صفحے پر اُس کے بانی کی بے حکمتی، انا پرستی، ہٹ دھرمی، خُود شکنی اور سیاسی فہم وفراست سے محرومی کے نوشتے رقم ہیں۔

    تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی، عمران خان نے پہلے ہدف کا تعین کرتے ہوئے، تحریکِ عدم اعتماد کو "رجیم چینج" (حکومتی تبدیلی) کی عالمی سازش قرار دیا۔ سائفر لہراتے ہوئے اُسے امریکی اور مقامی "میرجعفروں، میر صادقوں" کی ملی بھگت کا نام دیا۔ مظلومی سے جڑے جرأت وبہادری کے خود تراش نظریے کو "ہم کوئی غلام ہیں؟" "غلامی نامنظور" اور "آزادی" جیسے انقلابی نعرے دیے۔ اسی دوران جنرل باجوہ سے ملاقاتوں میں التماس کی کہ پی ڈی ایم کو فارغ کرکے اُنہیں پھر سے وزارت عظمی کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اس کے عوض جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کی۔

    عمران خان کا دوسرا اہم ہدف یہ تھا کہ پاکستان معاشی طورپر سنبھلنے نہ پائے اور دیوالیہ قرار پاکر زمیں بوس ہوجائے۔ اس ہدف کے لئے اُنہوں نے دلجمعی سے بھرپور مہم چلائی۔ اگست 2022ء میں خان صاحب کے وزیرخزانہ شوکت ترین کی آڈیو سامنے آئی جس میں وہ خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کرتے پائے گئے کہ آئی۔ ایم۔ ایف کو عدم تعاون کے خطوط لکھے جائیں تاکہ پاکستان کو کوئی نیا پروگرام نہ مل پائے۔ 23 مئی 2024ء کو عمران خان نے اڈیالہ جیل سے آئی۔ ایم۔ ایف کو ایک طویل خط میں تنبیہہ کی کہ وہ "انتخابات کا آڈٹ" کئے بغیر پاکستان کو قرض دینے سے باز رہے۔ اس خط کے تین ہفتوں بعد، 15 مارچ کو پی۔ ٹی۔ آئی نے واشنگٹن میں آئی۔ ایم۔ ایف کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے ایک شعلہ صفت مظاہرہ کیا۔

    فروری 2025ء میں عمران خان کے حکم پر پی۔ ٹی۔ آئی کے مرکزی راہنما عمرایوب نے آئی۔ ایم۔ ایف کے کنٹری ہیڈ برائے پاکستان سے ملاقات میں ایک فتنہ پرور خط حوالے کیا جس کے ساتھ پاکستان کی "غزہ" جیسی صورت حال بارے ایک بھاری بھرکم "ڈوزئیر" بھی منسلک تھا۔ عرضداشت یہ تھی کہ پاکستان کو دیوالیہ پن کے بحرِ ظلمات میں غرق ہونے دیا جائے۔ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی کے لئے عمران خان نے جنوری 2024ء میں سمندر پار پاکستانیوں سے پُرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ یہ اپیل عین اُس دن جاری کی گئی جس دن پی۔ ٹی۔ آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی بساط بچھ رہی تھی۔

    عمران خان کا تیسرا اہم ہدف (جس کی منصوبہ بندی وہ اپنے عہد حکومت ہی میں کرچکے تھے) یہ تھا کہ جنرل عاصم منیر کو کسی طور آرمی چیف نہ بننے دیا جائے۔ آئی۔ ایس۔ آئی کا سربراہ ہوتے ہوئے، جنرل عاصم سے "دوگستاخیاں" سرزد ہوچکی تھیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے ٹھوس شواہد اور دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم عمران کو بتایا تھا کہ اُن کا گھر کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ دوسری یہ کہ نیک نفس جرنیل نے دوٹوک انداز میں انکار کردیا کہ وہ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کے خلاف جعلی مقدمات بنائیں اور انہیں جیل میں ڈالیں۔

    عاصم منیر سے خفگی اتنی بڑھی کہ انہیں صرف سات ماہ اکیس دن بعد ڈی۔ جی۔ آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹا کر کنیزِ حرم جیسا کردار ادا کرنے والے فیض حمید کو کمان سونپ دی گئی۔ عاصم منیر کا راستہ روکنے کے لئے خان صاحب نے آخری فیصلہ کن یلغار، تقرری کے اعلان سے دو دن قبل کی جب وہ زخمی ٹانگ لئے، تھکا دینے والا سفر طے کرکے راولپنڈی پہنچے۔ عوام کا مجمع ایک دو ہزار سے آگے نہ بڑھا تو مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ جنرل باجوہ نے آخری لمحے تک عاصم منیر کی بھرپور مخالفت کی لیکن ایک فیصلہ لوحِ قضا وقدر پر کندہ ہوچکا تھا۔ عمران فیض حمید گٹھ جوڑ نے ہمت نہ ہاری۔ 9 مئی 2023ء کو تین سو کے لگ بھگ فوجی تنصیبات، فضائیہ کے اڈوں اور شہدا کے مزاروں کی تاخت وتاراج بھی فوج کے اندر ارتعاش پیدا کرکے عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش تھی۔

    سید عاصم منیر سے مخاصمت کے ساتھ ساتھ، خان صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نیزے کی اَنی پہ رکھا ہوا تھا۔ اُن کے چہرے پر رُسوائیاں تھوپ کر گھر بھیجنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے گئے لیکن قاضی صاحب، وقت آنے پر چیف جسٹس بنے اور پوری تمکنت کے ساتھ اپنی میعاد پوری کی۔ عمران خان نے اپنے ڈھب کی عدلیہ تخلیق کرنے کے لئے بھی بڑے جتن کئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے چھ جج صاحبان کا مکتوب گرامی طلوع ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے بھی رنگا رنگ خطوط آنے لگے۔ پھر خود عدالتیں بھی مشقِ سخن میں شامل ہوگئیں۔ خان صاحب کی شاخِ آرزو پر کونپلیں پھوٹ ہی رہی تھیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم آگئی اور "انقلاب"جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

    اب برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ سارے اہداف اور سارے منصوبے گورستانِ تاریخ کا رزق ہوچکے ہیں۔ سائفر کے ناٹک اور بیسیوں جلسوں کے باوجود کسی انقلاب نے انگڑائی نہیں لی۔ عوام اب اس کارِلاحاصل سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ "فائنل کال" کی بڑی ہزیمت نے پی۔ ٹی۔ آئی کے دست وبازو کی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف کا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوچکی ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے دیوالیہ پن کا خطرہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ خان صاحب کی اپیل کے باوجود سمندر پار سے ترسیلات زر نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔

    سید عاصم منیر، بھارت کے خلاف جنگ میں فتحِ مبین کے بعد فیلڈ مارشل کے بلند ترین منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ خان صاحب کی سپاہِ سوشل میڈیا کا نشانہ بننے والی پاک فوج، اہل وطن کے دلوں کے بہت قریب آگئی ہے۔ "صداقت وامانت" کی سنداتِ فضیلت بانٹنے اور "گُڈ ٹو سی یو" کہہ کر استقبال کرنے والی عدلیہ قصّہ ماضی ہوچکی۔ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے دی جانے والی سزاؤں کی توثیق کرچکی۔ سپریم کورٹ ہی کی ہدایت کے مطابق 14 اگست تک انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں 9 مئی کے ملزموں کے مقدر کا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل، فیصل ہونے کو ہے۔ خود فریبی کی کارگاہ میں تراشا گیا، ڈونلڈ ٹرمپ نامی مسیحا، اڈیالہ جیل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔

    یہ ہے وہ نیو نارمل (New Normal) یا "معمولِ نو"، جو پاکستان میں نہایت مضبوطی کے ساتھ خیمے گاڑ چکا ہے۔ اس "معمولِ نو" کی چولیں عمدگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ مودی کی بے سروپا جنگجوئی نے پاکستانیت کے احساس کو نئی جِلا بخشی ہے۔ اس توانا اور تازہ دم "معمولِ نو" کے سامنے ایک ایسا شکست خوردہ گروہ ہے جو اپنے تمام پتے کھیل چکاہے۔ اسٹیلبشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتے دیتے اس کے ہاتھوں سے لہو رسنے لگا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔

    ایسے میں ایک بار پھر شاہراہوں کو بندکرنے، عوام کو سڑکوں پہ لانے اور انقلاب بپا کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ "معمولِ نو" (New Normal) یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، مسکرا رہا ہے۔