Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. General Muhammad Zia Ul Haq (2)

General Muhammad Zia Ul Haq (2)

ضیاء الحق اتنے اچھے تھے، جیسا کہ ان کے مداحین کہتے ہیں اور نہ اتنے برے، جیسا کہ ان کے مخالفین دعویٰ کرتے ہیں لیکن ایک انتہائی دیانت دار، مکمل محب وطن اور انسان دوست۔ تبریٰ کرنے والوں پر حیرت ہے۔

مخالفین کے نزدیک جنرل پاکستانی معاشرے میں زوال کا تنہا ذمہ دار ہے۔ بہت سے لکھنے والے یہ تاثر دیتے ہیں اور اصرار کے ساتھ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہاہے۔ اس لیے کہ ضیاء الحق کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں۔

جنرل کی وفات کے بعد برسوں نواز شریف ضیاء الحق کے مزار پہ جاتے اور ان کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے؛تا آنکہ مشرف کا مارشل لا لگا۔ سیاست میں نوازشریف ہی ان کے وارث تھے۔ پنجاب اسمبلی میں میاں صاحب کے خلاف بغاوت ہوئی تو بے چین ہو کر ضیاء الحق لاہور پہنچے۔ دو ایسے جملے کہے جو اب تک دہرائے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نواز شریف کا کلّہ (کھونٹا) مضبوط ہے اور دوسری وہ حیران کن بات: خدا کرے میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ میاں صاحب میں انسانوں کو غچہ دینے کی خیرہ کن صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ایک ضیاء الحق ہی کیا، جنرل اسلم بیگ، جنرل حمید گل بھی ان پہ ریجھ گئے۔ وہ انہیں نیاز مندی کا تاثر دیتے رہے اور یہ دونوں سادہ لوح آدمی اس کے اندر چھپے ہوئے بھوکے تیندوے کو دیکھ نہ سکے۔

جنرل ضیاء الحق کا جنازہ بر صغیر کی تاریخ کے عظیم ترین جنازوں میں سے ایک تھا۔ خلقِ خدا اس طرح ٹوٹ کے امڈی کہ دانشور حیرت زدہ رہ گئے۔ اعجاز الحق میدان میں نکلے تو ہر کہیں ایسا استقبال کہ کسی حامی اور مخالف کو جس کا اندازہ نہ تھا۔ اعجاز الحق بنیادی طور پر سیاست کے آدمی نہیں۔ پھر یہ کہ عسکری قیادت نواز شریف کی پشت پہ آن کھڑی تھی۔

ایک نواز شریف ہی کیا، ضیاء الحق نے بہت سوں پہ دستِ شفقت رکھا۔ ان کی وفات کے فوراً بعد سردار عبدالقیوم خان، مجیب الرحمٰن شامی اور حسین حقانی نے ایک جلسہء عام کا اہتمام کیا۔ بھٹو ازم کے جواب میں ضیاء ازم کا نعرہ لگایالیکن جیسا کہ عرض کیا، عسکری قیادت تہیہ کر چکی تھی۔ ایوانِ اقتدار میں غلام اسحٰق خان غالباً واحد شخص تھے، جو نواز شریف کو بھانپ گئے تھے۔ 1990ء کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نے تین چوتھائی اکثریت حاصل کی۔ یا للعجب دوسری پارٹیوں کے علاوہ، جس میں جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم بھی شامل تھیں۔ بے نظیر اور ان سے زیادہ زرداری کی کرپشن سے خلقِ خدا نالاں تھی۔

اسلامی جمہوری اتحاد کی زیادہ مقبول جماعت مسلم لیگ کے صدر اب بھی محمد خاں جونیجو تھے۔ غلام اسحق خاں نے ایک نیم دلانہ کوشش کی کہ انہیں وزیرِ اعظم بنا دیا جائے۔ اسلام آباد مدعو کیا لیکن ٹھیک اس وقت، جب وہ ان سے بات کر رہے تھے، پرنسپل سیکرٹری فضل الرحمٰن کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جنرل حمید گل تھے۔ جنرل نے ان سے کہا: صدر صاحب کو بتا دیجیے کہ وزیرِ اعظم کے طور پر جونیجو قابلِ قبول نہ ہوں گے۔ کہانی یہیں ختم ہو گئی۔ اس کے بعد ایک ایک محسن اور ملک کے ساتھ جو سلوک نواز شریف نے روا رکھا، وہ تاریخ ہے۔ ایک پورا قبیلہ جوڑ توڑ کے ماہر اور سرکاری خزانہ لٹانے والے لیڈر نے پیدا کر لیا۔

دوسرے عوامل بھی تھے۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین، بھٹو کے پانچ سالہ اقتدار میں جنہوں نے خوف کا ایک طویل عرصہ بسر کیا تھا۔ بے رحم بھٹو، جس نے کارخانے قومیا کر پاکستانی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ ڈاکٹر نذیر احمد، مولانا شمس الرحمٰن اور احمد رضا قصوری کے والد ہی نہیں، احتجاجی مظاہروں میں 329مظاہرین کو قتل کرایا۔ معیشت تھم گئی۔ ملک خانہ جنگی کا منظر پیش کرنے لگا۔ فوج میں بے چینی پھیل گئی۔ لاہور میں د وبریگیڈئروں نے احتجاجی ہجوم پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔

جیسا کہ بعد ازاں ضیاء خاندان کی خواتین سے گفتگو میں اس طالبِ علم پہ کھلا۔ مئی کے آخر تک جنرل صاحب اپوزیشن کے 9جماعتی اتحاد کو شرپسند کہا کرتے۔ وزیرِ اعظم کے کہنے پر تین شہروں میں محدود مارشل لا بھی نافذ کیا لیکن تابہ کے؟ جب برّی فوج کے سربراہ کو وزیرِ اعظم نے باہم مل کر حکومت چلانے کی پیشکش کی تو ظاہر ہے کہ فوج کے سربراہ کا اندازِ فکر بدلنا تھا۔ حکومت اگر طاقت کے بل پر ہی کرنا تھی تو وہ خود کیوں نہ سنبھال لیں؟

جنرل ضیاء الحق اپنی ذات میں کیا تھے؟ 1988ء سے 1990ء تک بے نظیر کے اقتدار میں مسلسل اور متواتر انہیں کرپٹ کہا جاتا رہا۔ اسلام آباد کے دو بڑے بڑے مکانوں کی تصاویر دکھائی جاتی رہیں کہ یہ مرنے والے کی ملکیت ہیں۔ ایک دن اپنے خالہ زاد بھائی سینیٹر طارق چوہدری سے پوچھا تو وہ ہنسے اور کہا:ارے بھائی، یہ ہمارے گاؤں والے اس خاندان کے ہیں، جو "بولے" (بہرے) کہلاتے ہیں۔

ضیاء الحق کی جائیداد کہاں ہے؟ وہ دولت کہا ں ہے جو مخالفین کے بقول ہیروئن کی سمگلنگ سے خریدی گئی۔ بس ایک مکان ہے۔ نامو ر بیوروکریٹ جلال حیدر زیدی نے ایک دن اس کی کہانی مجھے سنائی۔ کہا: منت سماجت کرکے جنرل صاحب کو ہم نے ایک پلاٹ قبول کرنے پر آمادہ کیا کہ فوجی افسر کی حیثیت سے اپنا یہ استحقاق کبھی انہوں نے برتا نہ تھا۔ تعمیر کا مرحلہ آیا تو اپنے فرزند اور بینک سے قرض لینا پڑا۔

رات گئے تک جاگتے۔ کچھ دیر مطالعہ کرتے اور اس انہماک کے ساتھ کہ کبھی تو مطالعے کی میز ہی پر سر رکھ کر سو جاتے۔ تہجد کے لیے اٹھتے، تھوڑی دیر سوتے۔ پھر فجر کے لیے بیدار ہوتے۔ اس کے بعدکچھ دیر پھر آرام کرتے۔ صبح کی پہلی میٹنگ میں اکثر دس پندرہ منٹ یا آدھا گھنٹہ تاخیر ہو جاتی۔ باقی نیند آتے جاتے گاڑی میں پوری کرتے۔ ان کے گیارہ سالہ عہد میں، میں کچھ زیادہ معروف اخبار نویس نہ تھا۔ کالم لکھتا نہ تھا، ٹی وی تھا ہی نہیں ؛ با ایں ہمہ کبھی ایک لفظ ان کی حمایت میں لکھا نہیں۔ ان کی وفات کے دن ان کے پسندیدہ اخبار نویسوں میں سے ایک نے کہا: کیا تمہارا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا؟ عرض کیا: کیا مجھے ان سے ذاتی دشمنی تھی؟

ایک نہیں، ضیاء الحق نے کئی غلطیاں کیں، خاص طور پر مذہبی طبقے کی سرپرستی لیکن ان کے عہد کا پاکستان بہت مضبوط تھا۔ عسکری تعمیرِ نو کی۔ معیشت کو ایک بار پھر بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ غربت کم ہوئی زکوٰۃاور صدقات کا نظام قائم کیا۔ سویت یونین کو توڑ ڈالا۔ بھارت کے بکھرنے کی بنیاد رکھی۔ وہ انکسار کا پیکر تھے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، ماتحتوں اور عامیوں کے لیے بھی سراپا شفقت۔ وفات کے بعد ان کے اردلی پیر محمد سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ رو پڑا اور کہا "میرا باپ مر گیا اور آپ کو انٹرویو کی فکر ہے"

ضیاء الحق اتنے اچھے تھے، جیسا کہ ان کے مداحین کہتے ہیں اور نہ اتنے برے، جیسا کہ ان کے مخالفین دعویٰ کرتے ہیں لیکن ایک انتہائی دیانت دار، مکمل محب وطن اور انسان دوست۔ تبریٰ کرنے والوں پر حیرت ہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.