Friday, 19 April 2024
    1.  Home/
    2. Haroon Ur Rasheed/
    3. Farooq e Azam

    Farooq e Azam

    یہ عمر فاروقِ اعظمؓ کا دن ہے۔ اخلاقی عظمت کا استعارہ، جو تمام زمانوں اور تمام تہذیبوں کے افق پر دائم دمکتا رہے گا۔ دل و دماغ کی گہرائیوں سے ختم المرسلینؐ کے پورے پیروکار مگر ایسا تخلیقی ذہن کہ زندگی کو ہمیشہ اپنی آنکھ سے دیکھا۔ ہر چیز اور ہر واقعے کا خود تجزیہ کیا۔ شاید یہ بھی ایک وصف تھا کہ سرکارؐ نے فرمایا: میرے بعد کوئی پیمبر ہوتا تو عمر ہوتے؛حالانکہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا درجہ ان سے یقینا بلند تھا۔"دو میں سے دوسرے"، ہجرت اور غار کے ساتھی۔ اقبالؔ ان کو پہچانتے تھے۔ کم کسی کو ایسا انہماک نصیب ہوتا ہے کہ اپنے عہد ہی نہیں، بیتے زمانوں کے خدو خال بھی پہچان سکے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:

    جہانگیری بخاکِ ما سرشتند

    امامت درجبینِ ما نوشتند

    درونِ خویش بنگرن جہاں را

    کہ تخمش در دلِ فاروق کشتند

    ہماری مٹی کی فطرت میں بادشاہی اور ہماری پیشانی پہ امامت درج ہے۔ اپنے اندر اس جہان کو تلاش کرو، جو فاروق کے دل میں بویا گیا تھا۔ سکینڈے نیویا میں سوشل سکیورٹی کے قانون کو "عمر لا" کہا جاتا ہے۔

    جنرل حمید گل مرحوم نے، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، بیان کیا: سویڈن کے نائب وزیرِ اعظم ان سے ملنے آئے۔ بتایا کہ ملکی معیشت ابھی مضبوط نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کے چند ارکان نے یہ تجویز پیش کی کہ بار دار خواتین کو چھٹی کے ایام میں آدھی نہیں، پوری تنخواہ دی جائے۔ مباحثہ جاری رہا تو اکثریت متفق ہو گئی۔ بے شک وسائل کم تھے لیکن درد اور احساس غالب آیا۔ بتایا کہ کچھ ہی دن میں سمندر سے تیل کے ذخائر دریافت ہوئے کہ تلافی ہو گئی۔ یہی فاروقِ اعظمؓ کا ورثہ ہے، دردمندوں کی دستگیری۔

    جسٹس افتخار چیمہ، اللہ انہیں برکت دے، کے بارے میں ایک ناروا خبر چھپی تو آپ نے اخبار کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا: میں اپنی دیانت کی قسم نہیں کھاتا لیکن افتخار چیمہ کی امانت داری پہ حلف دے سکتا ہوں۔ جسٹس صاحب بیان کرتے ہیں کہ برطانیہ میں اپنے زمانہء طالبِ علمی میں پاکستانی دوستوں کے ہمراہ وہ اپنے ایک استاد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے پوچھا: کیا یہ ملک انہیں پسند آیا؟ پاکستانی طالبِ علم رطب اللسان ہوئے۔ کہا: سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ بیروزگاروں، محتاجوں اور مجبوروں کی حکومت دستگیر ہے۔

    اس پر انہوں نے ایک عجیب انکشاف کیا۔ کہا کہ یہ تصور ہم نے عمر فاروقِ اعظمؓ سے اخذ کیا۔ بتایا کہ وہ چرچل کے سیاسی حریف کی انتخابی مہم کے نگران تھے۔ فاروقِ اعظم ؓ کی زندگی کا انہوں نے مطالعہ کیا تھا۔ اس تصور پر کہ ریاست ہر حاجت مند کا ہاتھ تھامے، اپنی قیادت کو انہوں نے قائل کر لیا۔ جنگی ہیرو انتخابی معرکوں میں ہارا نہیں کرتے لیکن اس منصوبے کی بدولت چرچل ہار گئے۔

    ٹیپو سلطان برصغیر کی تاریخ میں جرات و شجاعت ہی نہیں، پاک بازی اور دردمندی کی ایک شاندار علامت ہیں۔ سنگِ سیاہ کے اس مزار پر، اقبالؔ جس کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے تھے، آج بھی انیس مقامی زبانوں میں گیت گائے جاتے ہیں۔ اکثریت ان میں غیر مسلموں کی ہوتی ہے۔ ایک جنگ میں شکست ہوئی تو سوا دو کروڑ روپے تاوان طے ہوا۔ پریشاں حال سلطان دارالحکومت کو لوٹ رہے تھے توخلقِ خدا راستوں پر امڈ آئی۔ جو کچھ کسی کے گھر میں تھا، اس کا ایک حصہ وہ اپنے ساتھ لایا؛حتیٰ کہ عورتوں نے اپنے زیور نذر کیے۔ ایک عادل اور دردمند حکمران کو ایسی ہی محبت نصیب ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دو ہزار آدمی ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ سپہ سالار وہ ایسے تھے کہ اس جنرل کو شکستِ فاش دی، بعد میں واٹر لو میں جس نے نپولین کو ہرا دیا۔ انگریز مرہٹوں اور نظام کے مشترکہ لشکر کو بھی شاید وہ شکست سے دوچار کرتے مگر غداروں نے یہ فتح ان سے چھین لی۔ شاید برصغیر اس عظیم اخلاقی ہستی کا مستحق نہ رہا تھا، اٹھارویں صدی میں جس نے عام رعایا کے لیے غیر سودی قرضوں کا نظام رائج کیا۔ عین حالتِ جنگ میں ترقیاتی منصوبوں پہ عرق ریزی جاری رہتی۔

    فاروقِ اعظم ؓ کا یہ جملہ مشہور ہے: دریائے نیل کے کنارے اگر کوئی کتا بھوک سے مر گیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہے۔ ایک دوسرے موقع پر کہا تھا: عراق کے دلدلی راستوں پر اگر کوئی خچر پھسل کے گر پڑا تو روزِ قیامت عمر سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ بالا قامت، با رعب اور وجیہ و شکیل۔ مورخ کہتا ہے کہ جب اپنے غلام کے ساتھ بیت المقدس کا رخ کیا تو ایسا لگتا تھا کہ زمین کانپ رہی ہے۔ با ایں ہمہ؛ایسے نرم خو کہ بلا جھجک احتیاج مند ان کے دروازے پر دستک دیتے۔ ایک پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا: امیر المومنین، میں آپ سے تنگ آگیا۔ شب بھر آپ بڑبڑاتے رہے اور اہلِ خانہ میں سے کسی کو کوڑا بھی رسید کیا۔ نہایت انکسار کے ساتھ اسے بتایا کہ کسی اور کو نہیں، میں اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ ایک خطا سرزد ہو گئی تھی۔ کوڑا بھی خود ہی کو رسید کیا تھا۔

    خلافت کے ابتدائی ایام تھے۔ دولت کی ریل پیل ابھی نہیں تھی۔ خزانہ ابھی قائم نہ ہوا تھا، بعد ازاں جس کا اہتمام ہوا۔ کمرے تعمیر کیے گئے اور ایرانی منشی بلوائے گئے، جو خزانے کے انتظام و انصرام کا تجربہ رکھتے تھے۔ رجسٹر منگوائے گئے اور ایک نیا محکمہ وجود میں آیا۔ یہی ایک کیا، ڈاکٹر حمید اللہ نے لکھا ہے: چھبیس نئے ادارے آپ نے قائم کیے۔ ظاہر ہے کہ انہی چراغوں کی روشنی میں جو اللہ کے آخری رسول نے جلائے تھے۔

    دشت سے ایک بدو نمودار ہوا۔ کہا: عمر مجھے کھلاؤ، مجھے پہناؤ۔ یعنی یہ کہ وہ بھوکا ہے اور ملبوس کے لیے ضرورت مند۔ کہا: میرے پاس تو اس وقت کچھ بھی نہیں۔ کچھ انتظار کر لو۔ حاجت مند دیوانہ ہوتاہے۔ اس نے کہا: عمر روزِ حشر اللہ کو کیا جواب دوگے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ کرتا اتارا اور اس کی نذر کیا۔ یہ تھے اصحابِ رسولؓ، جن سے ہم فیض نہیں پاتے، جن کی زندگیوں پر غور نہیں کرتے اور ایسے بدنصیب بھی ہیں کہ ان سے اعرا ض برتتے اور اعتراض اٹھاتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کرو گے، رہنمائی پاؤ گے۔ اصحاب کا ذکر ہو تو امام شافعی کی پیروی کرنی چاہئیے۔ ایسے موقع پر اہلِ بیتؓ کو وہ کبھی نہ بھولتے تھے۔ اس لیے کہ انہیں دہرا اعزاز حاصل تھا۔ وہ عالی مرتبت کے اہل تھے اور صحابیت کا شرف تو ظاہر ہے کہ حاصل ہی تھا۔

    واعظوں کو الگ رکھیے۔ جذبات نہیں، وہ دلیل کے پیروکار تھے۔ حسنِ نیت اور حسنِ خیال ہی نہیں، وہ حسنِ عمل کے لوگ تھے۔ خطبے کے ہنگام فرمایا: مہر مقرر کرنے کا میں نے فیصلہ کیا ہے۔ اس پر ایک بڑھیا نے کہا: قرآنِ کریم اور اللہ کے رسول نے مقرر نہیں کیا۔ آپ ایسا کرنے والے کون ہیں؟ اس کی بات پر غور کیا۔ لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد ارشاد کیا: ایک بڑھیانے عمر کو برباد ہونے سے بچا لیا۔ واعظوں کو الگ رکھیے اور اقبالؔ پر غور کیجیے۔

    جہانگیری بخاکِ ما سرشتند

    امامت درجبینِ ما نوشتند

    درونِ خویش بنگرن جہاں را

    کہ تخمش در دلِ فاروق کشتند

    About Haroon Ur Rasheed

    Haroon Ur Rasheed

    Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.