Saturday, 13 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Ye Hai Hamari Imandari (2)

Ye Hai Hamari Imandari (2)

ہمارے سامنے دوکہانیاں ہیں۔ پہلی کہانی توجب سے ہم نے ہوش سنبھالاہے تب سے دنیا کی کتابوں میں پڑھتے اورلوگوں سے سنتے آرہے ہیں۔ اس واقعے اورکہانی کاراوی بھی معلوم نہیں، اس کے اصل اورسندکابھی کسی کوکوئی پتہ نہیں۔ یہ کہانی کس ملک، کس صوبے، کس شہر، کس مسجدمیں ہوئی اوریہ مولوی صاحب کون تھے؟ اس کے بارے میں نہ صرف تاریخ بلکہ روایت آگے بیان کرنے والے بھی خاموش ہیں۔

راوی صرف اتنابیان کرتاہے کہ ایک بار بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کہیں خشک سالی کادورانیہ بڑھ گیا، لوگ بہت پریشان ہوگئے۔ اسی پریشانی میں ایک دن مسجدمیں نمازکے دوران جونہی مولوی صاحب نے سلام پھیرا، سلام پھیرتے ہی کچھ نمازیوں نے بلند آواز میں امام صاحب سے گزارش کی کہ مولاناصاحب خشک سالی بڑھ گئی ہے مہربانی فرما کر باران رحمت کیلئے خصوصی دعا فرما دیں۔ مولانا صاحب نے رخ پھیرتے ہوئے نظربھر کر نمازیوں کی طرف دیکھا اور کہا اس سے پہلے ایک ضروری اعلان ہے، اس کے بعددعاکرتے ہیں۔

مولانا صاحب نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولے کہ کسی کے تین ہزار روپے گرے ہیں جس کے ہوں وہ نشانی بتا کر لے سکتا ہے اس کے بعد دعا ہوگی۔ امام صاحب کے کہنے کے ساتھ ہی فوراًدس پندرہ نمازی کھڑے ہوگئے۔ مولانا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ پیسے میرے ہیں۔ آپ بارش کے لئے دعامانگنے سے پہلے اپنے معاملات اورعادات ٹھیک کرالیں بارش خودبخودہوجائے گی۔ یہ توگئے زمانے کی بات اورکہانی تھی اب آتے ہیں دوسرے واقعہ اورکہانی کی طرف۔

کچھ دن پہلے ملک کے مقدس ایوان جہاں ملک وقوم کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں۔ جس ایوان کاحصہ اوررکن بننے کے ساتھ ممبرایمانداری اوروفاداری کاحلف اٹھاتاہے، جہاں ہزاروں ولاکھوں لوگوں کے منتخب کردہ وہ ہیرے بیٹھتے ہیں جودنیاکے لئے رول ماڈل کہلاتے ہیں۔ ہیروں کے اس ایوان میں اجلاس کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب ایوان میں کسی رکن کے زمین پر گرے ہوئے پیسے ملنے کا واقعہ پیش آیا۔

جس واقعے اورکہانی کے متعلق ہم بچپن سے سنتے آتے تھے اس واقعہ اورکہانی کواب ہم نے دیکھ بھی لیا، یہ واقعہ سوفیصدوہی ہے صرف اس میں کرداربدلے ہیں۔ وہاں مرکزی کردارمولوی صاحب اورنمازی تھے یہاں سپیکر ایاز صادق اورقومی اسمبلی کے ممبران ہیں۔ اجلاس کے دوران سپیکر ایاز صادق نے وہ پیسے جوکسی رکن سے ایوان کے اندرگرے تھے اٹھا کر ایوان میں لہراتے ہوئے پوچھا کہ یہ کس کے ہیں؟ سپیکرصاحب نے بتایا کہ اپوزیشن کے ایوان میں آنے سے پہلے یہ رقم فرش سے ملی ہے۔ اس اعلان کے بعد پیسے لینے کے لئے کئی اراکین نے ہاتھ بلند کر دیئے۔

سپیکرکے ہاتھ میں پانچ پانچ ہزارکے لش پش نوٹ دے کردس بارہ ممبران نے ہاتھ کھڑے کردیئے جس پرایازصادق نے مسکراتے ہوئے کہاکہ اتنے توپیسے نہیں جتنے لوگوں نے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ اس پر ایوان میں قہقہے گونج اٹھے۔ اس واقعہ اورکہانی کی ویڈیوکواب لوگ تفریح کیلئے دیکھ رہے ہیں لیکن اس واقعہ اورکہانی میں تفریح سے زیادہ ہمارے لئے عبرت کاسامان ہے۔ ملک کاوہ مقدس ایوان جس کے ممبران نے وہاں کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ایمانداری اوروفاداری کاحلف اٹھایاہواہے، اس ایوان میں ممبران کی ایمانداری کایہ حال ہے توباہروالوں کاحال پھرکیاہوگا؟ ملک میں بھی اس وقت خشک سالی کاراج اوربارشیں نہیں ہورہی ہیں۔

اکتوبرسے شروع ہونے والی سردی کادورانیہ دسمبرکے درمیان تک پہنچ گیاہے۔ پھربھی ملک میں بارشوں کانام ونشان نہیں، ہرطرف خشک سالی جیسے مناظرہے۔ لوگ بارش کے لئے نمازاستسقاء سمیت گڑگڑاکردعائیں مانگ رہے ہیں لیکن بارشیں نہیں ہورہی۔ کاش کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی اس مولوی صاحب کی طرح ملک کے مقدس ایوان سے اپنے مقتدیوں اورقوم کومخاطب کرکے فرماتے کہ آپ ملک کے حالات، قومی خوشحالی اور بارش کے لئے دعامانگنے سے پہلے اپنے معاملات اورعادات ٹھیک کرالیں۔

دعاؤں پردعائیں کرنے سے بھی اگرحالات نہیں بن رہے اوررب راضی نہیں ہورہاتوہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکناچاہئیے کہ یہ خرابی موسم اورحالات میں نہیں ہمارے اپنے اندرہیں۔ مخلوق کے معاملات اورعادات جب ٹھیک نہ ہوں توپھررب روٹھ جایاکرتاہے۔ رب ناراض ہوتوپھرآسمان سے رب کی رحمتیں اورنعمتیں نہیں برستیں۔ بارش یہ رب کی رحمتوں میں سے ایک بڑی رحمت ہے۔ اسی بارش سے توزمین میں جان ہے۔ زمین میں جان ہوگی توہمیں گندم، چاول، دال، ساگ، مکئی، کپاس، سبزی وفروٹ سمیت رب کی دیگرنعمتیں ملیں گی۔

بارشیں نہ ہوں توخشک سالی سے زمین بنجراورپھرقحط سالی کاعذاب شروع ہوتاہے۔ اللہ قحط سالی سمیت ہرآسمانی آفت اورمصیبت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔ لیکن صرف دعاؤں سے کچھ نہیں ہوتا، اسی لئے تو کہتے ہیں کہ دعاکے ساتھ دواء بھی ضروری ہے۔ دوسروں سے گم ہونے والے دس پچاس ہزارروپے کے لئے مساجد، سکول، کالج، یونیورسٹیوں، کورٹ کچہریوں اورپارلیمنٹ میں اپنے ہاتھ بھی ہم کھڑے کرتے ہیں اورپھریہ امید، تمناوآس لگائے بیٹھیں کہ اوپروالاہمارے حال پررحم کرے گا۔ یادرکھیں جھوٹ بولنے، حرام کھانے اوردوسروں کے حقوق پرڈاکے مارنے والوں کے حال پراللہ کبھی رحم نہیں کرتا۔ رحم ان پرہی کیاجاتاہے جودوسروں پررحم کریں۔

دوسروں کاحق کھانے کے لئے بڑے مجمعے اوراجلاس میں یس سراورجی مولوی صاحب کہہ کرہاتھ اٹھانے اورآگے کرنے والوں کے حال پرکیسے رحم کیاجاسکتاہے؟ ملک میں یہ خشک سالی، بدامنی اورمعاشی بدحالی یہ کوئی آسمانی آفتیں نہیں بلکہ یہ ہمارے اپنے ان ہاتھوں کی پیداکردہ وہ فصل ہے جواب ہمیں کاٹنی پڑرہی ہے۔ ان چھوٹی موٹی آزمائشوں کے ذریعے اللہ ہمیں باربارسوچنے، سنبھلنے اورسیدھاہونے کاموقع دے رہاہے مگرافسوس ہم خشک سالی، بدامنی اورمعاشی بدحالی کی طرف تودیکھ رہے ہیں پرایک لمحے کے لئیاپنے گریبان میں نہیں جھانک رہے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم یہ حرام خوری، بے ایمانی اوررب کی نافرمانی چھوڑکرراہ راست پرآجائیں نہیں توپھرممبران اسمبلی کی طرح کوئی خاص ہیں یاہمارے جیسے عام سب ایک بات یادرکھیں کہ جھوٹوں اورسرکشوں کاپھرنام ونشان بھی باقی نہیں رہتا۔