Wednesday, 16 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Trump Aur Asim Muneer Ki Mulaqat

    Trump Aur Asim Muneer Ki Mulaqat

    صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات پر بھارت بے چین ہے۔ زرائع ابلاغ میں چیخ و پکار جاری ہے امریکی پرچم کی توہین کرتے ہوئے امریکہ کودہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ دراصل کئی گزرے برسوں کے دوران نریندرامودی ہم وطنوں کویقین دلا رہے تھے کہ حکومتی تعلقات کے ساتھ ٹرمپ سے اُن کے زاتی مراسم ہیں اسی زعم میں ٹرمپ کی انتخابی مُہم میں بھی حصہ لیا۔ شاید اسی لیے بھارتیوں کو یقین تھا کہ ٹرمپ کی پہلی ترجیح ہمیشہ بھارت رہے گا۔ اب ایسا نہیں ہونے پر غم و غصے اور اشعال میں ہے حالانکہ ریاستوں کے باہمی تعلقات میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ تعاون و تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔

    علاوہ ازیں دنیا فاتحین کو یاد رکھتی ہے شکست خوردہ جرنیل لاوارث ہوتے ہیں۔ گزشتہ ماہ مئی کی پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے عسکری فتح حاصل کی جب کہ بھارت کے حصے میں شکست جیسی زلت آئی جس سے ٹرمپ کی پہلی ترجیح بھارت نہ رہا۔ ٹرمپ اور عاصم منیر ملاقات سے عیاں ہوگیا ہے کہ امریکہ نے بھارتی ایما پر پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں سے بناکر رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کرلی ہے۔

    پاک مریکہ تعلقات گزشتہ چند برسوں سے خوشگوار نہیں رہے لیکن ٹرمپ سے عاصم منیر کی دو گھنٹے پر محیط ملاقات نے سارا منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ میزبان صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا تو مہمان عاصم منیر نے جنگ بندی میں کردار پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ جب ٹرمپ جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہیں اور پاکستان بھی اُن کی تائید کرتا ہے تو بھارتی حکومت پریشان ہوتی ہے کیونکہ وہ سیز فائر میں ٹرمپ کردار سے انکار کرتی ہے۔

    میزبان کے ساتھ سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو اور مہمان کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم ملک کی موجودگی اشارہ ہے کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے موقف اور ضروریات کو سمجھا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی میں امریکہ کی حمایت اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ پاکستان کی استعداد بڑھا سکتا ہے۔ نیز ملاقات اب پاکستان خود کو ایک فعال، متوازن اور ذمہ دار ملک کے طور پر خود کو دنیا سے منوانا آسان ہو سکتا ہے۔ اِس کے لیے عالمی روابط میں بہتری، قومی ترقی اور بہتر خارجہ حکمتِ عملی ناگزیر ہے اگر قومی قیادت فہم ودانش کا مظاہرہ کرے تو یہ ملاقات ہماری تاریخ کا ایساخوشگوار موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس سے ملکی ترقی کے ساتھ ساکھ اور کردارمیں اضافہ ہو۔

    صدر ٹرمپ کاروباری شخص ہیں، جنگوں پر کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں اُن کے دور صدارت میں سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے بہت کام ہوا ہے وہ نفع کے حصول کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں آج بھی امریکہ کے لیے سب سے اہم اسرائیل ہے مگر دوسری مدتِ صدارت کے آغاز میں اِس خطے کے سرکاری دورے کے دوران اسرائیل نہ جانے کی وجہ وہاں سے مالی منفعت نہ ہونا ہی تھا۔ وہ سعودی عرب، قطر اور عرب امارات گئے سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی مہنگے ترین تحائف لیے اور میزبانوں کی تعریف میں چند ایک توصیفی جملے بول کر چلتے بنے۔

    اسرائیل نہ جانے کی ہوشیاری اُنھیں میزبانوں کی نگاہ میں محترم و مکرم بنا گئی حالانکہ ایران و اسرائیل جنگ میں ٹرمپ کی تڑپ سے واضح ہے کہ وہ قیمت پر اسرائیل کی فتح چاہتے ہیں۔ پاکستان آجکل امریکہ کے لیے اِس لیے بھی اہم ہے کہ کرپٹو کونسل بنانے والا خطے کا پہلا ملک ہے۔ مزید یہ کہ کرپٹو منصوبوں کے لیے دوہزار میگاواٹ بجلی وقف کرچکا ہے صدر ٹرمپ کے خاندان کا اِس کاروبار سے کیا تعلق ہے؟ کسی سے پوشیدہ نہیں پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت ہم آہنگی ہے اسی بنا پر فیلڈ مارشل سے ملاقات کے اغراض و مقاصد ناقابلِ فہم نہیں۔

    معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے معدنی ذخائر سے فائدہ اُٹھانا چاہنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کا پاکستان شدت سے متمنی ہے۔ امریکہ کی موجودہ قیادت دنیا کے معدنی ذخائر پر کنٹرول چاہتی ہے یہ پہلو دونوں ممالک میں اشتراک کی ضرورت کو اُجاگر کرتا ہے۔ ٹرمپ کو بخوبی معلوم ہے کہ پاک عسکری و سیاسی قیادت کی سوچ ایک ہے اِس لیے عسکری قیادت سے تعلقات بڑھا کر معدنی ذخائر کے اہداف حاصل کرنے کے ساتھ خطے کی دفاعی صورتحال کو بھی اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔

    کچھ لوگ ٹرمپ کو جذباتی اور غصیلہ جان کر دنیا کو دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ اپنی سوچ اور خیال بدل لیں یقینی کاروباری نفع اُنھیں جذبات سے نکل کر سوچنے اور غصے کو بھلا کر مہمان کی تعریف کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جب یوکرینی صدر زیلنسکی نے اپنے ملک کے معدنی ذخائر امریکہ کے حوالے کرنے سے پس وپیش سے کام لیا تو ٹرمپ نے بدترین سفارتی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس سے نکال دیا۔ پاکستان بھی یاد رکھے کہ جب تک امریکہ کے لیے کاروباری نفع کے لیے حالات سازگار رکھے گا ٹرمپ انتظامیہ کے لہجے میں تب تک ہی حلاوت برقرار رہے گی۔

    صدرٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات ایران و اسرائیل مناقشے کے حوالے سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی کُھل کر مذمت کرتے ہوئے ایرانی بھائیوں کی سفارتی و اخلاقی مد دکے عزم کا اظہار کیا ہے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف تہران دورے کے دوران ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کی اپنی حمایت کا یقین دلا چکے۔ یہ صورتحال امریکہ اور اسرائیل کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے اسی لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو امریکہ کی عسکری تقریبات میں نہ صرف مہمانِ خصوصی بنا یاگیا بلکہ وائٹ ہاؤس میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اِس لیے ملاقات کاوقت بہت اہم ہے اور واقفانِ حال اِس بھاگ دوڑ کو دنیا کے واحد جوہری مسلم ملک پاکستان کو ایران کی عسکری امداد سے باز رکھنے کی مُہم کا حصہ قرار دیتے ہیں لیکن یہ مقصد شاید ہی پورا ہو کیونکہ فیلڈ مارشل عاصم منیر دورہ امریکہ کے دوران نجی تقریبات میں ایران کی جس غیر متزلزل حمایت کا اظہار کرتے رہے وہ دراصل پاکستان کی اپنی بھی ضرورت ہے۔

    ماضی میں چین اور امریکہ تعلقات قائم کرانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا اب ایک بار پھر دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت چین اور دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی ہے جس کی وجہ تجارتی غلبے کی دوڑ ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کے برآمدی سامان پر محصولات بڑھا رہے ہیں۔ دونوں ہی دنیا کے معدنی ذخائر پر کنٹرول کے لیے کوشاں ہیں۔ مستقبل میں بھی بظاہر امریکہ و چین کشیدگی میں کمی کے آثار نہیں اِن حالات میں پاکستان کی اہمیت اِس بناپر بڑھ گئی ہے کہ ماضی کی طرح یہ اب بھی امریکہ تعاون کرسکتا ہے۔

    ایک ایسا ملک جس کی نہ صرف جنوبی ایشیا میں عسکری برتری ثابت شدہ ہے بلکہ سی پیک کی تکمیل سے مشرقِ وسطیٰ، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا گیٹ بننے جارہا ہے نیز معدنیات کے وسیع ذخائر رکھتا ہے اِس کے ایران سے برادرانہ تعلقات ہیں۔ یہ چین کا بھی ایک ایسا بااعتماد دوست وشراکت دار ہے جو کچھ بھی منوا سکتا ہے ایسی خوبیاں بھارت میں نہیں۔ پاکستان کو توانائی مسائل کا سامنا ہے مگر اُس نے محض ٹرمپ خاندان کی خوشنودی کے لیے کرپٹو کونسل بنا کر دو ہزار میگاواٹ بجلی وقف کردی اِن سطور کی روشنی میں ملاقات کے اغراض و مقاصد کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔