Monday, 21 April 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Hameed Ullah Bhatti
  4. Pak Belarus Moahide

Pak Belarus Moahide

رواں صدی کو تبدیلیوں کی صدی کہنا بے جانہ ہوگا ماضی کے اتحادی ایک دوسرے سے دور جبکہ حریف اب حلیف بن رہے ہیں۔ دنیا کا منظر نامہ ایسا ہوگا ایسا دوعشرے قبل سوچنا ہی محال تھا مگر یہ انہونی اب حقیقت ہے۔ روس سے امریکہ اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کے لیے اپنے مغربی حلیفوں کی پرواہ بھی نہیں کرے گا۔ ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا لیکن یہ ہو رہا ہے۔ روسی موقف کی تائید کرتے اور اُسے اپنا ہم خیال بنانے کے دوران امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہا، بلکہ اپنے دیرینہ حلیف یورپی ممالک کو اعتماد میں لینا تو درکنار ناراضگی مول لینے پر آمادہ و تیار ہے۔

دراصل مملکتوں کے تعلقات میں خلوص، وفا یا بے لوث طرفداری کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ ضرورت اور مفاد کے تابع تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت میں تشکیل پانے والے نیٹو اتحاد میں شامل کئی ممالک کی پالیسیوں اور جھکاؤ میں تضاد ہے۔ ترکیہ نیٹو میں شامل ہے مگر جب امریکہ اور روس میں انتخاب کی بات آئے تو ترکیہ کا جھکاؤ روس کی طرف ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کئی اہم یورپی ممالک امریکی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔

ٹرمپ ٹیرف سے نہ صرف دنیا کی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی اہم امریکی اتحادی دور ہوئے ہیں اِن حالات میں پاکستانی قیادت نے طے کرنا ہے کہ ملک کا مفاد مدِ نظر رکھنا ہے یا بددستور پُرانی ڈگر پر چلنا ہے۔ امریکہ تو یہی چاہے گا کہ پاکستان اُس کے مفاد سے اہم آہنگ خارجہ پالیسی بنائے لیکن پاک چین دوستی ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان کی اولیں ترجیح بن چکی ہے۔ پاکستان تجارت کے فروغ کے لیے ایسے نئے راستے تلاش کررہا ہے جو چینی بلاک کا حصہ ہیں۔ روس اور اُس سے الگ ہونے والے ممالک بیلا روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے پاکستان تعلقات کوفروغ دے رہا ہے۔

پاکستان کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جو نفع بخش ہوں امریکی ٹیرف کے بعد تو یہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ چند ایک ممالک پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے مفاد میں نئی تجارتی حکمتِ عملی بنائی جائے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا دو روزہ سرکاری دورہ بیلا روس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اِس دورے سے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی کیونکہ تجارت، دفاع سمیت الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے معاہدے طے پائے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ہُنر مندوں کو بیلا روس بھجوانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

گزشتہ برس نومبر میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو نے 68 رُکنی وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا وفد میں کاروباری افراد کے ساتھ اہم صنعت کار بھی شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب غیر ملکی صدر کی آمد کا خیال کیے بغیر تحریکِ انصاف نے اپنے بانی کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسلام آباد پر چڑھائی کردی جس سے خطرہ پیدا ہوگیا کہ شاید سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے مہمان صدرکا دورہ ناکام رہے اور وابستہ توقعات پوری نہ ہو سکیں مگر سویلین اور مقتدرہ نے یکسو ہو کر نہ صرف دارالحکومت کا امن و سکون بحال کیا بلکہ اچھی مہمان نوازی بھی کی جس سے تواقعات سے بڑھ کر نتائج ملے۔ صرف پانچ ماہ بعد ہی شہباز شریف کا دورہ بیلا روس ثابت کرتا ہے کہ دونوں ممالک وسیع شراکت داری پر متفق ہیں اور اِس دوران کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اِس حوالے سے دونوں ممالک میں ایک روڈ میپ پر اتفاق ہو چکا ہے امکان ہے کہ جلد ہی دونوں میں بڑا تجارتی معاہدہ ہوسکتا ہے جس سے دونوں ملک ایک دوسرے کے مزید قریب آجائیں گے۔

روس سے الگ ہونے والے اکثر ممالک کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بندرگاہ نہیں خوش قسمتی سے پاکستانی بندرگاہیں اُن کی ضرورت پورا کرسکتی ہیں۔ پاکستان کا شمار ایسے اولیں ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے روس سے علیحدہ ہونے والے بیلا روس کو 1991 میں ایک الگ اور خود مختار ملک تسلیم کیا لیکن دونوں ممالک کا تجارتی حجم کچھ زیادہ نہیں محض پانچ کروڑ ڈالرز کے قریب ہے۔ 2023 میں پاکستان نے بیلا روس کو سوا تین لاکھ ڈالرز کا سامان بیچا جبکہ دو کروڑ ڈالرز کا سامان درآمد کیا۔ دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہیں۔ علاقائی تجارت کے فروغ جیسے معاہدوں کا حصہ ہونے کے باوجود دوطرفہ تجارت کا حجم بہت کم ہے لیکن جتنا بھی ہے تجارتی توازن بیلا روس کے حق میں ہے۔

پاکستان سے بیلا روس پھل، گوشت، جوتے، چمڑا، سرجیکل سامان، فوٹو گرافی کا سامان اور اناج کی مختلف اقسام درآمد کرتا ہے۔ گوشت اور سرجیکل سامان کی برآمدات میں معمولی سی کوشش سے خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ بیلا روس سے پاکستان ٹریکٹر اور اُس سے متعلقہ پُرزہ جات سمیت مختلف قسم کی مشینری درآمد کرتا ہے۔ اب تو الیکٹرک بسوں اور ٹریکٹروں کی مشترکہ تیاری کے معاہدے طے پا چکے ہیں جس سے مزید تجارتی توازن بیلا روس کے حق میں ہوجائے گا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران بیلا روس کی پاکستان کو برآمدات میں کمی ہوئی اِس کے باوجود اب بھی پاکستانی برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ نئی تجارتی منڈیوں کا پاکستان کو تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب پاکستان کے پاس وافر برآمدی سامان ہو جو موجودہ حالات میں مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چینی سامان کی طرح پاکستان دیگر ممالک کے سامان کی منڈی بننے جارہا ہے۔ اِس طرح ملک کے معاشی مسائل کا خاتمہ نہیں ہوسکتا اگر پاکستان کے معاشی ارسطو سوچتے ہیں کہ برآمدی خسارے پر وہ ہُنر مند افرادی قوت بھجوا کر قابو پالیں گے تو یہ ممکن نہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان برآمدی مصنوعات بڑھاکر تجارتی خسارہ ختم کرے۔

اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کو اہم محل وقوع کی وجہ سے کوئی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ خشکی میں گھرے ممالک کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں بہت اہم ہیں لیکن تجارتی راہداری دیکر محصولات حاصل کرنے کے ساتھ جب تک پاکستان اپنی برآمدات میں معقول اضافہ نہیں کرتا تب تک معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں بیلا روس سے طے پانے والے معاہدے بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہ اُس وقت تک بے فائدہ رہیں گے جب تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا۔

حکومت کو چاہیے کہ ملک کو غیر ملکی سامان کی منڈی بنانے کی بجائے پیداواری شعبے کی استعداد میں اضافے پر توجہ دے اور ہُنر مند افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیجنے کی حوصلہ افزائی نہ کرے بلکہ ملکی صنعتوں کو رواں رکھنے کے لیے تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں لائے جس سے ہُنر مندتعلیم کو فروغ ملے۔ موجودہ حالات میں تو ملکی صنعتوں کے لیے بھی ہُنر مندافرادی قوت کا فقدان ہے۔ اِس کے باوجود اگر بیرونِ ملک بھیجنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو خدشہ ہے کہ بہتر آمدن کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے سبھی ہُنرمند بیرونِ ملک جانے کی تگ ودومیں لگ جائیں گے جس سے ملکی صنعتوں کاپہیہ جام ہوسکتاہے۔