Tuesday, 08 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Jeet Ke Baad Ka Marhala

    Jeet Ke Baad Ka Marhala

    مارک کارنی ایک حقیقت پسند شخصیت ہے وہ دو بینکوں میں طویل عرصہ خدمات سرانجام دے چکے ہیں لہذا بھاؤ تاؤ اور تعلقات بنانے کے اسرار و رموز بخوبی جانتے ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن کا اقتدار کئی حوالوں سے غیر متوقع ہے۔ جسٹن ٹروڈو کی غیر معقول پالیسیوں نے لبرل پارٹی کو غیر مقبول بنادیا تھا پھر رواں برس کے آغاز پر ٹرمپ نے صدر بن کر کینیڈا سے اپنے ملک کی 51ویں ریاست بننے کا مطالبہ کردیا۔ اوول آفس میں ٹروڈو کو ساتھ بٹھا کر ٹرمپ کا انھیں گورنر کہنا اور پھر بار بار انضمام کی پیشکش دُہرانا ایک سربراہ مملکت کی واضح توہین تھی۔

    ٹرمپ کے اِس انداز سے بظاہر ڈٹ جانے والے ٹروڈو اندر سے خوفزدہ ہوگئے کیونکہ امریکہ اور کینیڈا میں دفاعی حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ ٹرمپ کی سمجھ نہ آنے والی طبعیت کہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے ایسے ہی خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے استعفیٰ دیکر مارک کارنی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کردی۔ اِس طرح وزیرِ اعظم کا منصب مارک کارنی کے حصے میں آ گیا جس کے بعد حالات یکدم پلٹا کھانے لگے اور مقبولیت سے محروم ہوتی لبرل پارٹی دوبارہ عوام میں مقبول ہونے کے زینے طے کرنے لگی۔

    رواں برس اپریل میں جب ملک میں عام انتخابات کی مُہم کا آغاز ہوا تو ابتدائی جائزوں کے مطابق لبرل پارٹی کی مقبولیت محض سولہ فیصد رہ گئی تھی۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام میں کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے گزشتہ دس برس سے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز جسٹن ٹروڈو نے داخلی مسائل سے ہٹ کر خارجی مسائل کوجب موضوع گفتگو بنانا شروع کردیا اور کینیڈا کے ادغام کی ٹرمپ پیشکش کو ناقابلِ قبول اور گورنر کہنے کے عمل پر ناپسندیدگی ظاہر کرنے لگے تو اُن کا یہ عمل کینیڈین شہریوں کو بھلا لگا جس سے لبرل پارٹی کی طرف لوگ دوبارہ متوجہ ہونے لگے مگر جیت کے لیے یہ مقبولیت پھر بھی ناکافی تھی، مگر جب جسٹن ٹرودو نے اقتدار اور جماعت کی سربراہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ نئی قیادت آگے آکر نئے حالات کے مطابق پالیسیاں بنا سکے تو یہ فیصلہ ملک کے سیاسی حالات کا دھارا موڑنے کاسبب بن گیا اور پیشگی جائزے بھی تیزی سے بہتر ہونے لگے۔

    آخر کار اٹھائیس اپریل کو ملک میں قومی انتخابات ہوئے تو صرف چارماہ قبل عدم مقبولیت کا شکار جماعت 43فیصد ووٹ لیکر پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت کی حثیت سے سامنے آئی اور اقتدار کی تاک میں بیٹھی اپوزیشن ایسی حالت سے دوچار ہے کہ اپوزیشن رہنما پولیور اپنی ذاتی نشست پر بھی شکست کھا چکے ہیں۔ دراصل جب کوئی ملک بیرونی خطرے سے دوچار ہوتا ہے تو سیاسی حوالے سے منقسم عوام داخلی مسائل کو غیر اہم جان کر پس پشت ڈالتے ہوئے قومی یکجہتی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے یہی کچھ کینیڈا میں ہوا۔

    لبرل پارٹی کے دورِ اقتدار کو اگر کینیڈا میں سماجی بہبود کے حوالے سے دیکھا جائے تو کسی طور بہتر یا درست نہیں کہا جا سکتا بدترین داخلی مسائل نے عوام کو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ماضی کے خوشحال کینیڈا کو اب معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ صحت و تعلیم کے مسائل بڑھے ہیں طرفہ تماشہ یہ کہ حکومت نے محصولات کی بڑھوتری سے شہریوں پر مزید بوجھ ڈالتی گئی۔ جن ممالک میں جمہوریت رائج ہے وہاں کے انتخابی نتائج پر داخلی مسائل اثر انداز ہوتے ہیں لیکن ایسا کینیڈا میں کیوں نہیں ہوا یہ جاننے کے لیے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت نہیں۔

    ٹرمپ کی جارحانہ سوچ اور دھمکیوں نے لبرل پارٹی کے بے جان ہوتے وجود میں زندگی کی نئی روح پھونکی اور عوام کی اکثریت نے لبرل پارٹی کے اقتدار میں معاشی اور سماجی بہبود کے نمو پاتے مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لبرل پارٹی کا ڈٹ جانے کا سیاسی بیانیہ پسند کرلیا۔ ٹرمپ کب کیا کر بیٹھیں اِس بارے وثوق سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا سچ تو یہ ہے کہ اُن سے دنیا خوفزدہ ہے مگر کبھی کبھی شر سے خیر بھی سامنے آجاتا ہے جس کی نظیر کینیڈا کے قومی انتخابات ہیں۔ اِس حقیقت سے کوئی صرفِ نظر نہیں کر سکتا کہ دراصل ٹرمپ کے خیالات کو عوام کی اکثریت نے رَد کردیا اور ڈٹ جانے کا بیانیہ لبرل پارٹی کے لیے سود مند ثابت ہوا ہے۔

    ماضی کے بینکار مارک کارنی نقصان کو نفع میں بدلنے پر قادر ہیں یا نہیں یہ جاننے کے لیے لوگ بے چین ہیں۔ اِس وقت کینیڈا کو کئی ایک داخلی و خارجی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف ٹرمپ کو یقین لانا ہے کہ کینیڈا جیسا ایک آزاد و خود مختار ملک امریکہ کا اتحادی اور شراکت دار تو ہو سکتا ہے ضم نہیں ہو سکتا اور اگر انضمام پر زیادہ مجبور کیا جاتا ہے تو باہمی تعلقات متاثر ہونا یقینی ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو دفاعی تیاریوں کے لیے خطیر رقم مختص کرنا پڑے گی یوں لامحالہ ملک کے اندر جاری سماجی بہبود کے منصوبے متاثر ہوں گے۔

    یہ ماضی سے ایک بلکل مختلف نوعیت کی صورتحال ہوگی علاوہ ازیں ملک کے اندر امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے بھی کینیڈا کو نئے سرے سے ایک ایسی جامع حکمتِ عملی درکارہے جو بھارت کی طرف سے قومی سلامتی کے نام پر سکھوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے لاحق خطرات کا توڑ ثابت ہو کیونکہ موجودہ صورتحال میں ملک میں آباد ہر شہری کو آزاد ماحول میں زندگی بسر کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سکھ رہنما خوف کا شکار ہیں۔ کینیڈا میں آباد سکھوں کو بھارتی حکومت کی ایما پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ مارک کارنی درپیش اندرونی اور بیرونی محاذ پر کِس حدتک کامیاب ہوتے ہیں؟ اُن کا دورہ امریکہ زیادہ خوشگوار نہیں رہا بدھ کے روز سات مئی کو پاس بٹھا کر ٹرمپ نے جب اُنھیں انضمام کی اپنی خواہش سے آگاہ کیا اور عوضانے میں دفاعی نظام مفت دینے کی پیشکش کی تو بظاہر مارک کارنی نے کینیڈا بیچنے کے لیے نہیں رکھا جیسا طنزیہ جواب دے کر مغرور ٹرمپ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جس کا کچھ اثر بھی دیکھنے میں آیا۔

    اِس غیر متوقع جواب پر دوستی اور پیار جیسی باتیں کی گئیں مگر اِس دباؤ سے مستقل کیسے چھٹکارا حاصل کرنا ہے؟ یہ مارک کارنی کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اسی طرح بھارت سے بھی مارک کارنی کو محتاط رہنا ہوگا انھوں نے کینیڈا میں ہونے والے جی سیون اجلاس میں شرکت کا تادم تحریر مودی کو دعوت نامہ نہیں بھجوایا جس سے امکان ہے کہ شاید چھ برس کے بعد پہلی بار مودی ممکنہ طور پر سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہوسکیں، یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑھتے تناؤ کی طرف اِشارہ ہے۔

    ٹرمپ اور مودی کی طرف سے کینیڈا کو درپیش خطرات کا توڑ کرنے کے ساتھ مارک کارنی نے اپنے ملک کی عوام کا اعتماد بھی بحال رکھنا ہے وہ کوئی نو عمر یا ناتجربہ کار نہیں بلکہ ایک جہاندیدہ شخص ہیں۔ وہ امریکی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں عالمی سطح پر ہم خیال نئے اتحادیوں کی تلاش کابخوبی ادراک رکھتے ہوں گے۔ اِس میں وہ کامیاب ہوں گے یا لبرل پارٹی کو دوبارہ غیر مقبول بنانے کاسبب بنیں گے؟ کا درست جواب بطور وزیرِ اعظم اُن کی کارکردگی دیکھ کر ہی دیا جا سکے گا۔