اسرائیل کی ایران کے خلاف بلاجواز اور ناجائز جارحیت کے نتیجے میں دونوں ممالک میں جنگ جاری ہے۔ دونوں طرف اہم تزویراتی اہداف کو نشانہ بنایاجا رہا ہے اور ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ اِس جنگ کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کاخطرہ موجود ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک ملوث ہونے کاعندیہ دینے لگے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصانات اور معاشی تباہی جیسے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ عالمی طاقتیں امن کے لیے طاقتور ممالک کو جارحیت سے باز رکھیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر ملک کی آزادی و خودمختاری کی پاسداری کو یقینی بنائیں مگر اسرائیل کے سرپرست ممالک عملی طور پر ایران کے خلاف کاروائی کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ اب تو نیتن یاہو کی حکمتِ عملی یہ محسوس ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے سرپرستوں کو جنگ کا حصہ بنا لیں جسے کم از کم الفاظ میں بھی جنگ کی تباہ کاری و ہولناکی بڑھانے کی سازش کہہ سکتے ہیں کیونکہ ایک مسلمان ملک کو جارحیت اور تباہی کا سامنا ہے اس لیے عالمی طاقتیں اسرائیل کو مواقع دے رہی ہیں کہ ایران کی عسکری اور معاشی تباہی کو یقینی بناکر رجیم تبدیلی کا مقصد حاصل کرلے۔
اسرائیل نے پہلے حملے میں ہی آرمی چیف، پاسدارانِ انقلاب اور خلافی تحقیق کے سربراہوں سمیت ایران کے چوٹی کے سائنسدانوں کو شہید کر دیا۔ اِس کاروائی میں ایرانی غداروں نے حملہ آور فضایہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ عام قیاس یہ ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد سے بھارتی ایجنسی راء نے تعاون کیا۔ اِس کی تائید کے لیے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حملے کے بعد جس شخص کو اعتماد میں لیا وہ نریندرامودی ہے۔ حملے کے فوری بعد تو ایران میں سناٹے کی کیفیت نظر آئی اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ فلسطین، عراق اور شام کی طرح کا ایرانی حشر دور نہیں لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا۔ جلد ہی ایران سنبھل گیا نہ صرف تباہ شدہ فضائی دفاعی نظام بحال کر لیا بلکہ جارحیت کا بھرپور جواب بھی دینے لگا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری دونوں کو امن پسندی کی طرف لاتی اور جارح ملک کے خلاف وسیع عالمی کاروائی کا آغاز کیا جاتا مگر اِس کی بجائے ایران کو ہی حملوں کے جواب میں صبروتحمل کرنے کا درس دیا جانے لگا۔ جانبداری پر مبنی ایسا رویہ انصاف کے منافی ہے جس کی وجہ سے خطہ بڑی جنگ کے دہانے پر آسکتا ہے۔ ایسے حالات کی ذمہ دار صیہون نواز عالمی طاقتیں اور اسرائیلی قیادت ہیں۔ یہ ناانصافی اور جانبداری دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اب جبکہ تباہی کے جدید ترین ہتھیار ایجاد ہو چکے اِن حالات میں اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو تباہی لامحدود ہوگی لہذا بہتر ہے کہ جانبدار عالمی طاقتیں انصاف پر مبنی رویہ اپناکر امن کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔
ایران پر اسرائیلی حملے کا اِس لیے بھی جواز نہیں تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کے لیے مزاکرات کے پانچ مثبت ادوار اب نتیجہ خیز ہونے کے قریب تھے مگر رواں ماہ پندرہ جوان کو مسقط میں متوقع ایران اور امریکہ کے فائنل راؤنڈ سے قبل ہی تیرہ جون کی صبح دو سو طیاروں سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا یوں چھٹا دور نہ ہو سکا۔ مزاکراتی عمل کو سبوتاثر کرنے کا ذمہ دار اسرائیل ہے مگر کیونکہ امریکہ کا چہیتا ہے اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ اُس کا محاسبہ کرنے کی بجائے ایران کو دھمکا رہے ہیں۔
مقامِ اطمنان یہ ہے کہ مسلم ممالک کو اغیار کی سازشوں کی سمجھ آنے لگی ہے۔ امریکہ کے بڑے اتحادی سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کا ایرانی صدر سے رابطہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنا ایران کو اپنی اخلاقی و سفارتی حمایت کا یقین غیر معمولی ہے۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان بھی ایرانی صدر سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان نے بھی واضح اور دوٹوک انداز میں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مسلم اُمہ کے اتحاد کی ہلکی سے رمق نظر آئی ہے اور دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ ایران یک و تنہا نہیں۔ علاوہ ازیں اگر صیہون نواز طاقتیں اسرائیل کے ساتھ ایران کے خلاف کاروائی میں حصہ دار بنتی ہیں تو امریکی مخالفت کے جذبات کی بنا پر چین و روس کا طویل عرصہ غیرجانبدار رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ اِس لیے بہتر ہے اسرائیل کی سرپرست قوتیں انصاف سے کام لیں اور دنیا کو جنگ میں دھکیلنے کی بجائے امن کوششوں میں شراکت دار بنیں۔
مذہبی بنیادوں پر دشمنی خطرناک عمل ہے لیکن اسرائیل کی ہمسایہ ممالک کے خلاف کاروائیاں اسی جذبے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایساکوئی ملک رہنے نہیں دینا چاہتا جو اپنا دفاع کرسکے۔ وہ تمام عرب ممالک کو اپنے رحم و کرم پر رکھنا چاہتا ہے۔ نیتن یاہو کی سوچ انتہا پسندانہ ہے یہ جنونی شخص اسلام مخالف سازشوں کا مرکزی کردار ہے ایران پر حملوں کے متعلق غیر جانبدار حلقے کہتے ہیں جس طرح کیمیائی ہتھیاروں کا الزام صدام حسین پر لگایا گیا ستمبر 2002 میں نیتن یاہونے امریکی کانگرس کے سامنے حلفیہ کہا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں اور احمدالجلبی کی شکل میں ایک مقامی ہم خیال سامنے لاکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی حالانکہ بعدازاں ثابت ہوگیا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار نہیں۔ اُسی طرح ہی ایران سے رویہ اختیار کیا گیا ہے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مزاکرات میں ایران نے جوہری بم نہ بنانے کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ جوہری تنصیبات کی عالمی معائنہ کاری پر بھی رضا مندی ظاہر کی تھی اسی لیے اسرائیل نے مقامی سہولتکاروں کی مدد سے ایک بڑا فضائی حملہ کردیا جس کا مقصد جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا نہیں ہے بلکہ اِس میں مسلم دشمنی کاجذبہ کارفرما ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو خاندانی پس منظر سے جنونی اور انتہاپسند ہے اِس کادادا میلیکووسکی نیتن یاہو بھی ایک مذہبی رہنما (ربی) تھا جو روس کی خوشحال زندگی چھوڑ کر1924میں یروشلم منتقل ہوگیا۔ اِس کا والد بینزیونیتن یاہو عبرانی زبان کا پروفیسر اور گریٹر اسرائیل کا غیر متزلل حامی رہا ہے۔ بنجمن نیتن یاہونے پروشلم میں جنم لیا اور بچن سے ہی مسلم دشمنی کا سبق پڑھا۔ یہ جنونی اپنے دادا اور والد کی طرح فسلطینیوں کوبے دخل کرنا اور علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ یہ جنونی 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں میں شامل ہو کر کئی سازشوں اور خونی مُہمات کا حصہ رہا ہے۔ یہ اسرائیل کا سب سے طویل عرصہ وزیرِ اعظم رہنے والا شخص ہے جس کی وجہ عالمی صیہونی تحریک کی پشت پناہی ہے اِس لیے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسرائیل و ایران میں جاری جنگ کا خاتمہ ہو بھی جاتا ہے جس کے کسی حدتک آثار موجود ہیں تو یہ عارضی وقفہ ہوگا کیونکہ اسرائیلی جارحیت ایک مخصوص سوچ مسلم دشمنی کی عکاس ہے۔ جب تک اسرائیل مسلم دشمنی ترک نہیں کرتا تب تک مسلم ممالک کو جارحیت کا سامنا ہوتا رہے گا۔