حضرت ابراہیمؑ کا مقام بہت بلند ہے اُن کا لقب خلیل اللہ بھی ہے جس کا مطلب ہے اللہ کا خاص دوست۔ آپ نے زندگی بھر دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا اِس دوران کسی قربانی سے دریغ نہ کیا تاریخ میں اللہ کی بندگی، سچائی اور قربانی کی ایسی درخشندہ مثال بہت کم ملتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے ایسے ماحول میں جنم لیا جب بت پرستی عام تھی اجتماعی عبادات کے لیے نہ صرف بڑے بڑے بت خانے تھے بلکہ خیر و برکت کے لیے گھروں میں بھی لوگوں نے بت سجا رکھے تھے جن کی پوجا کی جاتی اور منتیں مانگی جاتیں۔
حضرت ابراہیم کے والد آزر خود ایک ماہر پیشہ ور بت تراش اور بت فروش تھے مگر حضرت ابرہیمؑ کیونکہ اللہ کے بنی تھے اِس لیے نہ کبھی شرک کیا اور نہ ہی بتوں کے آگے جھک کر کبھی تعظیم کی بلکہ بچپن سے ہی نورِ نبوت کی بدولت توحید کی روشنی پہچان گئے۔ آپ نے جب اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا کہ یہ بے جان بت جو نہ سُن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں اور نہ نفع نقصان کا باعث بن سکتے ہیں تو تم اپنے ہاتھوں سے بنائے اِن بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ آپ کی دلیل اور حکمت والی باتوں کا کسی کے پاس جواب نہ ہوتا۔ آپ اِس طرح چاہتے تھے کہ قوم خود سوچ سمجھ کر حق قبول کرلے مگر لوگ کہتے ہم اپنے باپ داداکے بتائے طریقے کوصرف آپ کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب بے باکی سے حق گوئی کا آغاز کیا تو ابتدا میں اپنے والد کو نرمی اور شائستگی سے سمجھایا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بتوں کی پرستش شرک ہے صرف اللہ کی عبادت کریں جو ہر چیز پر قادر ہے، زندگی اور موت بھی اُسی کے اختیار میں مگر والد نے بھی انکار کر دیا۔ آپ مایوس نہ ہوئے اور مسلسل دعوتِ توحید دیتے رہے جہاں بھی موقعہ ملتا آپ معبودِ برحق کی طرف لوگوں کو بلاتے لیکن قوم آپ کی بات ماننے پر آمادہ نہ ہوئی حالانکہ آپ کی پاکیزگی، راست گوئی اور سچائی کے سبھی معترف تھے۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے مسلسل تبلیغ کا عمل جاری رکھا تو قوم آپ کے خلاف ہوتی گئی آپ کے والد سے آپ کے متعلق کو شکایات کی جاتیں پھر بھی دعوتِ توحید پر ثابت قدم دیکھا تو لوگ انھیں بستی سے نکالنے اور سزا دینے کے طریقے سوچنے لگے۔
ایک روز جب حضرت ابراہیمؑ کی قوم شہر سے باہر تہوار پر گئی ہوئی تھی تو آپ نے بت خانے میں داخل ہوکر بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا جب لوگ واپس آئے اور بت خانے میں توڑ پھوڑ دیکھی تو آگ بگولا ہو گئے اور شور مچانے لگے کہ ذمہ دار کو عبرت ناک سزا دی جائے گی کیونکہ آپ دیگر لوگوں کی طرح جانے کی بجائے رُک گئے تھے اسی بناپر شک کیا گیا کہ ہو نہ ہو یہ سب حضرت ابراہیمؑ کا کیا دھرا ہے لوگوں نے جب دریافت کیا کہ اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے خداؤں کو توڑا ہے؟ تو آپ کا جواب تھا کہ اسی بڑے بت سے پوچھو جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے اِس جواب نے لوگوں کو لاجواب کر دیا کچھ لوگوں نے جب کہا کہ یہ بت نہ بول سکتا ہے نہ سن سکتا اور نہ ہی حرکت کر سکتا ہے تو یہ بھلا کیسے یہ سب کچھ سکتا ہے؟ جس پر حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ جو اپنی حفاظت کرنے سے قاصرہیں اور سننے، بولنے اور حرکت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ تمہاری حاجت روائی کیسے کر سکتے ہیں؟ اب بھی وقت ہے دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے توحید پر ایمان لے آؤ لیکن کوئی ایمان نہ لایا بلکہ لوگوں نے شدتِ طیش میں آکر آپ کو ایسی سزا دینے کا فیصلہ کرلیا جس کے بعد کوئی بھی بتوں کی بے حرمتی کے بارے سوچ بھی نہ سکے۔
سزا دینے کے مختلف طریقوں پر طویل غوروخوض کے بعد بت پرستوں نے حضرت ابراہیمؑ کو نذرِ آتش کرنے پر اتفاق کر لیا اِس مقصد کے لیے ایک میدان میں لکڑیوں کا ڈھیر لگاکر آگ لگائی اور منجیق کے زریعے اللہ کے بنی کو آگ میں پھینک دیا۔ اِس آزمائش میں بھی حضرت ابراہیم ثابت قدم رہے اور مسلسل لوگوں کو دعوتِ توحید دیتے رہے آپ ابھی منجیق میں ہی تھے اور آگ سے دور کہ اللہ کا حکم آگیا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا۔ اِس معجزے کے زریعے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اللہ کبھی اپنے سچے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ دستگیری فرماتا ہے۔
قوم کی مسلسل نافرمانی کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ نے مصر، شام اور مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت فرمائی اور ہر جگہ اللہ کی واحدنیت کا پیغام پہنچاتے رہے یہ دعوت زبان کے ساتھ کردار و عمل سے بھی تھی آپ کو اللہ رب العزت نے بڑھاپے میں حضرت اسماعیل کی صورت میں فرزند عطا فرمایا جو آپ کو ازحد عزیز اور پیارے تھے مگر ابھی ایک اور امتحان تھا ایک شب آپ نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے پیارے بیٹے کو اللہ کی رضا میں قربان کررہے ہیں اِس خواب نے آپ کو پریشان کردیا جب اپنے فرزند کو خواب کے متعلق بتایاتو حضرت اسماعیلؑ نے جواب دیا اے والدِ محترم آپ کو جو حکم ہوا ہے اُس پر عمل کریں انشااللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ حضرت ابراہیمؑ نے لختِ جگر کو زمین پر لٹاکر آنکھوں پر پٹی باندھی اور چھری چلادی تو اللہ کے حکم سے جنت سے ایک مینڈھا آیا اور زبح ہوگیا اِس طرح اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور صبر کرنے پر حضرت اسماعیلؑ کو آنچ تک نہ آئی اللہ نے اِس تابعداری پر فرمایا اے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا اسی واقعہ کی یاد میں حجاج عید الاضحیٰ پر قربانی کرتے ہیں اپنے نبی کی اداخالقِ کائنات کو اتنی پیاری لگی کہ حج کا لازمی حصہ بنا دیا۔
اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ ہماری یہ خدمت قبول فرما اور ہماری نسل سے ایک ایسی اُمت پیدافرما جو تیری بندگی کرے اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی ہمارے پیارے نبی آخر الزماں اسی دعا کے نتیجے میں معبوث ہوئے یہ اللہ کا ہم پر وہ احسان ہے جس کے لیے جتنی بھی شکرگزاری کی جائے کم ہے۔ آئیے دعا کریں اے اللہ ہم آج حج پر نہیں جا سکے لیکن تیرے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہماری عبادات قبول فرما اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق دے آمین بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔