جب سے ہوش سنبھالا ہے حکومتوں کو ہرسال دعویٰ کرتے سنا ہے کہ اُس نے ایساغریب پرور بہترین بجٹ پیش کیا ہے جس سے صنعت وزراعت کو فروغ ملے گا بے روزگار ی اور مہنگائی ختم ہوگی جبکہ اپوزیشن بجٹ کو ظالمانہ کہہ کر مسترد کرتی ہے۔ اکثر ایوان میں احتجاج ہوتے دیکھا ہے لیکن بجٹ کو کیسے عوام دوست بنایا سکتا ہے اِس حوالے سے کام نہیں کیا جاتا۔ جہاں تک سرکاری ملازمین کا تعلق ہے وہ ہربجٹ سے شاکی رہتے ہیں لیکن اِس بار حکومت نے تنخواہ و پینشن میں خاطرخواہ اضافہ کر دیا ہے اِس لیے سرکاری ملازمین کو سڑکوں پر دیکھنے کی متمنی اپوزیشن کے خواب شاید پورے نہ ہوں۔
موجودہ بجٹ ایسے حالات میں پیش کیا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ مئی میں بھارت سے زمینی اور فضائی جھڑپیں ہوئیں جس میں پاکستان کو واضح فتح ہوئی لیکن کمزور معیشت پر اخراجات کے حوالہ سے ایسا بوجھ آیا ہے لہذا کچھ غیر متوقع اخراجات بجٹ کا حصہ ہیں۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کے دوران حکومت نجکاری کے اہداف حاصل نہیں کرسکی اِس لیے مختلف شعبوں کا گردشی قرضہ بڑھتا رہا۔ ٹیکس وصولوں کے اہداف بھی حاصل نہ ہوئے۔ اطمنان کا پہلو یہ ہے کہ دیوالیہ کے خدشات کا خاتمہ ہوگیا ہے جو حکومت کا بڑا کارنامہ ہے لیکن مستحکم معیشت کے لیے تنخواہ داروں کے ساتھ دیگر شعبوں سے وصولیاں ناگزیر ہیں۔ علاوہ ازیں برآمدات کے مقابلے میں دوگنا درآمدات میں کمی لانے کے ساتھ پیداواری اضافے کی ضرورت ہے فی الوقت حکومتی دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بڑی صنعتوں کے ساتھ زرعی پیداوار میں ملک کو مسلسل کمی کا سامنا ہے۔
حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26کے لیے 17 ہزار573 ارب کابجٹ کردیا ہے جس کے متعلق حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ بدترین حالات میں یہ ایک بہترین بجٹ ہے جس میں معاشی نظم و ضبط کے ساتھ سماجی تحفظ اور ترقیاتی اہداف کو یکجا کرنے پر توجہ دی گئی ہے لیکن اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ بجٹ متوازن نہیں اور بتائے گئے اعداد و شمار غلط، تصوراتی اور مفروضوں پر مبنی ہیں۔ معاشی سمت درست نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا ٹھیک نہیں اسی بنا پر کچھ حوالوں سے بے اطمنانی ہے۔
قرضوں سے معیشت نڈھال ہے موجودہ بجٹ میں بھی 8207 ارب روپے یعنی سب سے زیادہ رقم سود کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی ہے جو کل بجٹ کے نصف سے کچھ ہی کم ہے۔ 6501 ارب کا خسارہ ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران بھی مزید قرض لینا مجبوری ہوگا یوں قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت پر دباؤ بڑھتا رہے گا اِس لیے خود کفالتی کا دعویٰ پورا نہیں ہو سکے گا۔ اِس کے باوجود حکومت اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کا کوئی منصوبہ نہیں بنارہی۔ تنخواہ داروں اور زرعی شعبے کو سہولیات دینے کے لیے تو آئی ایم ایف سے اجازت لی جاتی ہے لیکن قانون سازاِداروں کے ممبران اور وزیروں و مشیروں کی تنخواہ و مراعات میں دو سے چھ صد فیصد اضافہ بغیر کسی بحث کر دیا جاتا ہے اور کسی قسم کی اجازت طلب نہیں کی جاتی۔
یہ طرزِ عمل عوام سے حکومتی خلوص کے دعووں کی نفی کرتا ہے مزید حیران کُن پہلو یہ ہے کہ اِس حوالے سے سینٹ اور قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہے اب یہی لوگ بجٹ پر طویل بحث کریں گے صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر و رہائش گاہوں کے اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ اِس بنا پر سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایف بی آر کو محصولات وصول کرنے میں مسلسل کئی برس سے ناکامی کا سامنا ہے موجودہ تخمینہ 14 ہزار131 ارب ہے جو بادی النظر میں بلند ہدف ہے اِس لیے شاید ہی آئندہ مالی سال میں وصولی کاہدف حاصل کر سکے البتہ ترقی کی شرح 4.2کے امکان میں وزن ہے اور یہ اندازہ کسی حد تک حقیقت پر مبنی لگتا ہے۔
دفاعی اخراجات کے لیے مختص 2550 ارب پر اعتراض کرنا درست نہیں وجہ ملک کو مسلسل بھارتی دباؤ کا سامنا ہے علاوہ ازیں حالیہ پاک بھارت تصادم کے بعد تو یہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ملکی سلامتی کو اولیں ترجیح دی جائے۔ ملک کی بہادر افواج نے آٹھ گنا زیادہ اخراجات اور نفری رکھنے والی فوج کو دھول چٹاکر ثابت کردیا ہے کہ یہ اِدارہ فرائض سے غافل نہیں یکسوہے۔ نیز قومی سلامتی کا تحفظ کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاک فوج نے پیشہ وارانہ مہارت سے بھارت جیسے دشمن پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی ہے جس سے کئی عشروں کے بعد عالمی سطح پر پاکستان سے بھی بھارت جیسا سلوک کیا جانے لگا ہے جس پر قوم خوش ہے اور سمجھتی ہے کہ آزادی جیسی نعمت کادفاع دیگر ترجیحات کی طرح اہمیت کے اعتبادسے کم نہیں۔
پوری دنیا میں خود کفالت کے لیے کام ہورہا ہے اِس کے لیے اکثر ملکوں میں اِدارے ہیں جن کی مشاورت سے حکومتیں منصوبے بنا کر عمل کرتی ہیں لیکن پاکستان میں آج بھی انگریز دور کا فرسودہ نظامِ تعلیم رائج ہے جس میں کامیابی کے لیے رٹا اہم ہے۔ یہ نظام جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اور ماہرین کی بجائے صرف کلرک پیدا کرنے تک محدود ہوچکا ہے۔ موجودہ بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 716 ارب کی خطیر رقم رکھی گئی ہے مگر آج بھی رقوم کی تقسیم میں شفافیت کا فقدان ہے جس سے سماجی شعبے کے تحفظ کا عزم ظاہر نہیں ہوتا بلکہ ووٹ بٹورنے اور بھکاری بنانامقصد لگتا ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ امدادی رقوم حاصل کرنے والوں کے لیے حکومت ایسے منصوبے شروع کرے جس سے وصول کنندہ کوئی ہُنر سیکھ کر معاشرے کا کارآمد شہری بنے۔ اگر ہُنر سیکھنے والے مرد و خواتین کو اِس پروگرام کے تحت اعزازیہ کی صورت میں امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو نہ صرف غیر مستحق افراد کو حقداروں کا حق کھانے سے روکا جا سکتا ہے بلکہ نچلے طبقے کومستقل طور پر پیروں پر کھڑا کرنے اور اُن کی آمدن بڑھانے میں مدد ملے گی اِس طرح غربت میں تخفیف ممکن ہے۔
بجٹ میں صوبوں کا حصہ 8206 ارب ہے علاوہ ازیں پس ماندہ صوبے بلوچستان کے حصے کو بڑھایا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت ملک کے تمام حصوں میں برابر ترقی کی خواہاں ہے مگر اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جس کے لیے مرکز اور صوبوں میں مالی شراکت داری بہتر بنانے اور مزید شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے توانائی کے شعبے میں سبسڈی کے لیے 1186 ارب رکھے ہیں۔ بڑے شہروں کے مسائل حل کرنے کو بھی اولیت دی ہے مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ صحت کے لیے صرف 14.3 اور تعلیم کے لیے محض 18.5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
اِن اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی تبدیلی کے باوجود پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی یہ سوچ ترقی پذیر ملک کی ضروریات کے منافی ہے اعلیٰ تعلیم کے لیے 38.5 جبکہ سائنس وٹیکنالوجی کے رواں اکتیس منصوبوں کے لیے محض 4.8 ارب مختص کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم و تحقیق کے ساتھ عام آدمی کی صحت کا آج بھی بجٹ میں ثانوی درجہ ہے۔ حالانکہ ساری دنیا میں تعلیم و تحقیق کے لیے خطیر رقوم رکھنے کا مقابلہ ہے عام آدمی کی صحت کو بھی اولیت دی جاتی ہے مگر پاکستان میں اِن دونوں شعبوں کو بُری طرح نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اسی لیے ملک میں تعلیم وصحت کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ اِس حولے سے حکومت کو بجٹ پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تعلیم و تحقیق اور بہترصحت کے بغیر ملک سے غربت و پسماندگی ختم کرنے کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔