Friday, 11 October 2024
  1.  Home/
  2. Fayaz Ul Hassan Chohan/
  3. Nach Meri Bulbul Ke Paisa Milay Ga

Nach Meri Bulbul Ke Paisa Milay Ga

29 جولائی کو شمالی انگلینڈ کے ساؤتھ پورٹ کے ایک ٹاؤن میں ایک ڈانس کلاس میں ذہنی طور پر مبحوس الحواس سترہ سالہ ایکسل روڈیکوبانا (Axel Rudakubana) نامی لڑکے نے تین کمسن لڑکیوں کو قتل کر دیا۔ اِس دردناک اور المناک واقعے پر کسی نے سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلا دی کہ جس سترہ سالہ لڑکے نے اِن تین معصوم لڑکیوں کو قتل کیا ہے وہ ایک مسلمان تارکِ وطن ہے جو غیر قانونی طور پر انگلینڈ میں داخل ہوا ہے۔ اِس فیک نیوز اور جعلی خبر کے پھیلنے کی دیر تھی کہ برطانیہ میں نسلی فسادات کا اِک طوفان کھڑا ہوگیا۔

مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے اور آہستہ آہستہ یہ مظاہرے نسلی فسادات میں تبدیل ہوگئے۔ برطانوی نسل پرست گروہوں نے مسلمانوں کی جان مال عزت اور جائیدادوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا اور مقابلے میں مسلمانوں اور دیگر تارک وطن گروہوں نے برطانوی نسل پرستوں پر حملے شروع کر دیئے۔ جیسے ہی فسادات کی آگ نے ہوا پکڑنی شروع کی برطانیہ کی حکومت، اُن کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور برطانیہ کی عدالتیں میدانِ عمل میں نکل آئیں۔

کیونکہ حضرت آدم سے لے کر قیامت تک، دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں دنگا، فتنہ، فساد او ر ریاست و اجتماعیت کی رٹ کو چیلنج کرنا سب سے قبیح، مکروہ، گھٹیا، غلیظ اور مضرِ انسانیت عمل جانا، مانا، پہچانا اور گردانا جاتا ہے۔ خصوصاً یورپ امریکہ اور برطانیہ کے قانون پسند معاشروں میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کو چیلنج کرنا اور اُنہیں آنکھیں دکھانا ناقابلِ برداشت جرم مانا جاتا ہے۔

دنیا کے تمام ممالک میں چاہے جہاں حکومت جمہوری ہو یا غیر جمہوری، بادشاہت ہو یا آمریت، آٹو کریسی ہو یا ارسٹو کریسی، جائز ہو یا ناجائز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کی مرضی و منشاہ کی ہو یا پھر اُن کی مرضی کے برخلاف زور و زبر دستی کی حکومت، بادشاہت اور آمریت ہو کسی ملک، معاشرے اور نظامِ مملکت میں عوام اور حکومت کی رٹ و عزت، معاملات، کاروبارِ زندگی اور کاروبارِ مملکت کو فتنہ و فساد، افراتفری، چھینا چھپٹی، مارا ماری، طوائف الملوکی، قتل و غارت گری کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم، حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظامِ عدل نے سب کام چھوڑ کر سب سے پہلے اِن فسادات کو روکنے اور اُن کے آگے قانون کا بندھ باندھنے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ فسادیوں، بلوائیوں اور سوشل میڈیا پر فیک پراپیگنڈہ کرنے والوں کو چند دنوں کے اندر قانون کے شکنجے میں لا کر نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ پھر کیا ہوا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دن رات ایک کرکے سی سی ٹی وی کیمروں، آڈیوز، ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹز کے ذریعے بلوائیوں کی پہچان کرنا شروع کی اور پوری پولیس فورس بمعہ خطرناک کتوں اُن کے گھروں اور ٹھکانوں پر حملہ آور ہوگئی۔

فسادیوں بلوائیوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کے گھروں کے دروازے کھڑکیاں توڑ کر اُن کے بیڈ رومز میں اُن پر کتے دوڑا کر اُن کو گرفتار کرکے دھڑا دھڑ عدالتوں کے سامنے پیش کر نا شروع کر دیا۔ عدالتوں نے اپنی چھٹیاں، خانگی زندگیاں، فیملی مصروفیات اور طے شدہ عدالتی اوقاتِ کار، تمام معاملاتِ زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دن رات اور آدھی رات کو بھی عدالتیں کھول کر فسادی اور بلوا ئیوں کو صرف اور صرف آڈیوز، ویڈیوز، سی سی ٹی وی کیمروں، سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ پوسٹوں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں پر محض انتہاہ پسندانہ رائے اور کمینٹس کے ثبوتوں کی حقانیت کو حکومتی قانون نافذ کرنے والے اور دیگر اداروں کے تعاون سے صرف چند گھنٹوں میں جانچ کر دھڑا دھڑچھ ماہ سے لے کر آٹھ آٹھ سال کی سزائیں سنا کر جیلوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔

ایک بلوائی نے عدالت میں کہا کہ میں تو صرف تماشا دیکھ رہا تھا۔ عدالت نے اُسے یہ کہہ کر چھ ماہ کی سزا سنا دی کہ بلوے، فساد اور دنگے والی جگہ پر کھڑا ہو کر چسکے لینا بھی جُرم ہے! ایک بلوئی کی ایک دوکان سے پانی کی بوتل اُٹھانے کی ویڈیو سی سی ٹی وی کیمرے میں محفوظ ہوگئی عدالت نے اُسے دوسال کی قیدِ بامشقت سنا دی! ایک بلوائی نے ایک پولیس مین کو اوئے، کہہ کر مخاطب کرکے اُسے مارنے کے لیے ایک بوتل اُس کی طرف پھینکی۔ عدالت نے اُس بلوائی کو بھی دو سال کی قید سنادی۔

صابر شاکروں، معید پیرزادوں، عادل راجوں، حیدر مہندیوں، وجاہت ایس خانیوں، پاکستان میں ڈالرز کی تھاپ اور جنرل فیض حمید نیٹ ورک کے اشاروں پر ناچنے والے وی لاگروں، یو ٹیوبروں، تجزیہ نگاروں، اپنی چرب زبانی اور چر چر کرنے کی صلاحیتیں رکھنے والے اینکرز اور اینکرنیوں سے میرا بڑا معصومانہ سوال ہے کہ برطانیہ میں آپ کی طرح کے کسی "ماں کے لاڈلے" او ر "باپ کے بگڑے" صحافی، اینکر، تجزیہ نگار، وی لاگر اور یو ٹیوبرنے انسانی حقوقِ، جمہوری روایات، اخلاقی وجوہات اور آزادی اظہار رائے کے نام پر ناچ ناچ کر اپنے پاوں کے گھنگھروں نہیں توڑے!

برطانیہ میں کسی ٹی وی چینل اور صحافی نے فسادیوں بلوائیوں اور فیک نیوز کا کاروبار کرنے والے ڈیجیٹل دہشت گرد کو ہیرو بنا کر پیش نہیں کیا! برطانیہ کی عدالتوں کے ججز نے فسادیوں بلوائیوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کے گھروں کے دروازے کھڑکیاں توڑنے اور اُن پر کتے چھوڑنے کے عمل پرآنسو نہیں بہائے اور نہ ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اور بلوائیوں کے حق میں سٹے آرڈروں کی برسات نازل نہیں کی! برطانیہ کی عدالتوں اور ججز نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بہانے اور چھتری تلے محض اپنے مفادات پورا کرنے اور اپنے تعلقات نبھانے کی خاطر بلوائیوں، فسادیوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کو سٹے آرڈرز کے پھولوں کے ہار اور ضمانتوں کی چادریں نہیں چڑھائی!

برطانیہ کی عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پورے وقار اور گریس فُل انداز سے ثابت کیا کہ تہذیب یافتہ معاشروں میں فتنہ پرستوں، بلوائیوں اور فسادیوں کی کوئی عزت وقار احترام اور حقوق نہیں ہوتے۔ تبھی برطانوی حکومت نے دس دنوں کے اندر فسادات پر قابو بھی پا لیا اور اپنے معاشرے اور عوام کو امن سکون آتشی کے دلفریب سفر پر دوبارہ سے گامزن کر دیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں اپریل 2022ء سے شروع ہونے والے فتنہ و فساد سے لے کر 9 مئی کے تین سو زائد برطانوی فسادات سے ہزاروں گُنا بڑی نوعیت کے فسادات اور دہشت گردی کے واقعات پر پاکستان کا نظامِ عدل "سلسلہ فیضیہ" کے ہاتھوں بیعت کرنے کے بعد سکون کے ستو اور اطمینان کی لسی پی کر سو رہا ہے اور نظامِ صحافت کے اکثر ملنگ اور قلندر "سلسلہ فیضیہ" کے پیروں کا مرید بن کر سر میں مونیٹائزیشن کی خاک ڈال کر "ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا۔ خالی بھوکٹ بیٹھے گی تو کیسا ملے گا"کے گانے پر سر دُھن رہے ہیں۔