Friday, 06 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. 26Wi Aeeni Tarmeem Ya Phir Siasi Tarmeem

26Wi Aeeni Tarmeem Ya Phir Siasi Tarmeem

"بڑا شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا۔ جو چیرہ تو اِک قطرہ خوں نہ نکلا" کے عین مصداق 26ویں آئینی ترمیم کی فلم پارلیمنٹ کی پردہ سکرین پر آنے سے پہلے ہی ناکام ہوگئی۔ اِس فلم کی سب بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن اِس پوری فلم میں کبھی ہیرو اور کبھی ولن کا روپ دھارتے ہوئے نظر آئے! مولانا فضل الرحمن نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ "سیاسی جپھیاں" اور "سماجی پپیاں" ہمہ وقت اور ہمہ جہت جاری اور ساری رکھی ہوئی تھیں۔

مطالبات اور دھاڑ کی گن گرج ایک ساتھ میدانِ سیاست میں پروان چڑھائی ہوئی تھی۔ آئین کے رکھوالے، جوڑ توڑ کے متوالے اور سیاسی جیالے کا روپ بیک وقت مولانا فضل الرحمن کی شخصیت سے جھلک رہا تھا۔ مولانا صاحب کے آستانے پر حکومت، اپوزیشن اور مختلف سیاسی جماعتوں کے وفود کی "آنیوں جانیوں" کا سلسلہ، میڈیا کی DSNG اور ملکی اور عالمی میڈیا کے نمائندوں کا جمِ غفیر اِتنا زیادہ تھا کہ ایک وقت میں مولانا فضل الرحمن پاکستان کی سیاست کا "مہاراجہ اُدھے پرتاپ سنگھ" لگ رہے تھے۔

مولانا فضل الرحمن "اِک طرف اُس کا گھر اور اِک طرف میکدہ" کے گھن چکر میں ایسے پھنسے کہ فی الحال نہ تو "سیاسی محبوبہ" کے گھر کی یاترا کر سکے اور نہ ہی "سیاسی میکدے" کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکے! مولانا فضل الرحمن کی سیاسی حالت یہ تھی کہ۔۔

اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اُف اللہ کچھ کر بھی نہیں سکتے

خیر مولانا صاحب نے "تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو" کے مترادف اپنے آخری فیصلے کو ملتوی کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایسا "سیاسی لیمو پانی" پلا کر رخصت کیا کہ جس میں"ہاں والی چینی" اور "ناں والا نمک" دونوں شامل تھے! یہ سیاسی لیموں پانی پینے سے اپوزیشن تو بظاہراً بڑی ترو تازہ ہوگئی لیکن حکومت کا ہاضمہ خراب ہوگیا۔

26ویں آئینی ترمیم کی فلم میں ایک کردار "قانون خان" کا بھی ہے اور یہ آنے والے دن بتائیں گے کہ یہ کردار سائیڈ ہیرو کا تھا یا پھر سائیڈ ولن کا۔ 26 ویں آئینی ترمیم والی فلم کی سٹوری رائٹنگ اور کریکٹرز میں ملکی اور عالمی کئی مشہور و معروف ادارے، کمپنیاں، آرگنائزیشنز، شخصیات اور ممالک بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس فلم سے متعلقہ تمام سٹیک ہولڈرز کبھی امریکہ اور کبھی برطانیہ کی یاترا کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی "سیاسی فلم انڈسٹری" کے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی سوچ کے مطابق انڈسٹری کو زوال پذیر ہونے سے بچانے کے لیے "26ویں ترمیم" والی فلم کا پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین پر کامیاب اور ہٹ ہو نا بہت ضروری ہے بصورتِ دیگر پاکستان کی سیاسی فلم انڈسٹری تباہی و بربادی کا شکار ہوجائے گی۔ اگر پاکستان کی سیاسی فلم انڈسٹری تباہی، ناکامی اور تنزلی کا شکار ہوئی تو اُس کا ڈائریکٹ اثر پاکستان کی ریاست اور معاشیات پر پڑے گا اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام مہنگائی اور معاشی رُسوائی کی چکی میں بُری طرح پس جائیں گے۔

تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ پاکستان کی سیاست کے موجودہ "مہاراجہ اُدھے پرتاپ سنگھ" کو آسمان کی بلندیوں سے زمین پر لانے کے لیے قومی اسمبلی کے سپیکرنے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے وہ اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے جلد از جلد فیصلہ کرے کیونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے قانون سازی اور آئین سازی کے عمل کو آگے بڑھا نا ہے تاکہ ملک کو سیاسی اور معاشی حوالے سے آگے بڑھایا جا سکے اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل2024 پاس کر لیا ہے جو 2017 سے موثر ہوگا جس کے مطابق کوئی آزاد رُکن ایک دفعہ اسمبلی کی کسی پارلیمانی پارٹی کو جوائن کرنے کے بعد دوبارہ کسی دوسری جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا بصورتِ دیگر اُس پر آئین کے آرٹیکل 63 کا اطلاق ہوگا۔

الیکشن کمیشن اگر قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے کی گئی سو فیصد آئینی اور قانونی درخواست پر عملدرآمد کر دیتا ہے تو پھر "مہاراجہ اُدھے پرتاپ سنگھ" کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی اپوزیشن میں سے کسی قسم کی کوئی نقب لگانے کی ضرورت ہوگی اور اگر کسی سائیڈ ہیرو یا پھر سائیڈ ولن نے تب بھی "26 ویں ترمیم" کی فلم کو مکمل ہونے اور پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین پر چلنے سے روک دیا تو پھر حالات و واقعات اور نظائر و قرائن یہ بتاتے ہیں کہ پھر پاکستان کے 25 کروڑ عوام اور ریاست کی ملکی اور عالمی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے "سیاسی ترمیم" کے نام سے ایک نئی فلم پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین پر چلائی جائے گی۔