وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے حالیہ دنوں میں پاکستان اکادمی ادبیات، اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ اور اقبال اکادمی کو ادارہ برائے فروغ قومی زبان میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی ہے، جس کے ساتھ یہ بھی سفارش دی گئی ہے کہ اس نئے ادارے کو کسی جامعہ کے اردو شعبے کے زیر نگرانی کر دیا جائے اور اگر یہ انتظام ممکن نہ ہو تو ان اداروں کو بند کر دیا جائے۔
اس فیصلے نے ایوان بالا میں بھی ردعمل پیدا کیا، جہاں حکومت پاکستان کے ایڈوائزر، سینئر صحافی سینیٹرعرفان صدیقی نے سینیٹ اجلاس کے دوران 13 جون 2025ء کو اس تجویز کی سخت مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اداروں کی حیثیت قومی شناخت کے طور پر ہے اور ان کی بندش یا انضمام سے پاکستان کا علمی و فکری امیج مزید مجروح ہوگا۔ اگرچہ اصولی طور پر ان کا موقف درست ہے تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ عرفان صدیقی جیسے باخبر اور تجربہ کار صحافی بھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ یہ ادارے دہائیوں سے مخصوص لابیوں، سفارشیوں اور مصنوعی ادیبوں کے قبضے میں چلے آ رہے ہیں۔
اکیڈمی ہو یا بورڈ، ان اداروں نے نہ صرف حقیقی اہلِ علم و ادب کو دانستہ طور پر ان کی خدمات کے اعتراف کے لئے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور ان کو پروگرامز، ایوارڈز اور تحقیقی کام سے دور رکھا ہے، بلکہ ہمیشہ اپنے عہدوں کے ذریعے مفاد پرستی، گروہ بندی اور علمی جبر کو فروغ دیا ہے۔ ایسے بے شمار مستند اور قابل ادیب، مفکر اور دانشور ہیں جنہیں صرف اس لیے ان اداروں سے باہر رکھا گیا کہ کہیں ان کی علمی قامت سے موجودہ بونے بے نقاب نہ ہو جائیں۔
ان اداروں نے ہمیشہ معیار کے بجائے تعلق، سیاسی وابستگی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ ان کے سربراہان کا علمی معیار، ان کی ذاتی تخلیقی خدمات اور ادارے کے تحت ہونے والا کام اگر غیر جانبدار ماہرین کے سامنے پیش کیا جائے تو حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے اپنے وسائل اور پلیٹ فارم کو صرف خاص گروہوں کے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
اردو سائنس بورڈ، جو کہ 1962ء میں اس نیک نیتی سے قائم ہوا کہ سائنسی علم کو عام فہم اردو میں منتقل کیا جائے، وہاں بھی ایسے افراد کو سربراہ بنایا گیا جن کا سائنس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ اشفاق احمد، ظفر اقبال، امجد اسلام امجد یا ناصر عباس نیر جیسے افراد کو سائنس بورڈ کی ادارتی ذمہ داریاں دینا ایسے ہی ہے جیسے کسی انجینئر کو فلسفہ پڑھانے کے لیے چن لیا جائے۔ ان تقرریوں کے پیچھے علم نہیں، اثر و رسوخ اور ادبی سیاست کا ہاتھ رہا۔ یہ ادارے آج بھی کروڑوں روپے کے بجٹ پر قائم ہیں مگر ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنہیں ادبی ترقی اور زبان و تہذیب کی آبیاری کرنی تھی، وہ ادارے آج علم و فن کی تباہی کے ضامن بن چکے ہیں۔
موجودہ ادبی منظرنامہ ان ہی اداروں کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ جو ادارے نوجوان نسل کو اقبال، فیض، منیر نیازی، احمد فراز، ساحر لدھیانوی، اخترحسین جعفری، سلیم کوثر، ڈاکٹر یونس خیال، ڈاکٹر ابرار عمر، علی نواز شاہ، شفیق احمد خان، پروفسر شاہد کمال، ڈاکٹر اسد محمود خان، پروفسر ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار، فیصل زمان چشتی، سعیدآسی، منظر حسین اختر، اعجاز رضوی، عدیم ہاشمی، ڈاکٹر عامر سہیل اور فرحت عباس شاہ جیسے فکری اور تخلیقی نابغوں سے متعارف کروا سکتے تھے، انہوں نے ان کی جگہ علی زریون، تہذیب حافی یا سوشل میڈیا کے وقتی شہرت یافتہ شاعر تراش دیے۔
ایک منظم تہذیبی یلغار کے تحت اقبال جیسے قومی شاعر کو جون ایلیا جیسے نسبتاً محدود دائرہ کار رکھنے والے شاعر سے تبدیل کرنے کی مہم ان اداروں کی خاموشی اور عدم مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ ان اداروں کی غفلت نے نہ صرف قومی بیانیے کو کمزور کیا بلکہ علمی سطح پر ایک خلا پیدا کیا ہے جسے اب چند سچے اہلِ قلم بھی پُر نہیں کر سکتے۔
ان اداروں کے دفاتر، جو اربوں روپے مالیت کی عمارات پر مشتمل ہیں، صرف چند مخصوص افراد کی ذاتی آسائش کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر واقعی نیک نیتی سے علم و ادب کی خدمت مقصود ہو تو ان اثاثوں کو بیچ کر یا کرایے پر دے کر حاصل ہونے والی رقم کو ایک فنڈ میں رکھا جائے اور اس سے اصل تخلیق کاروں، جینوئن مفکرین اور سنجیدہ لکھاریوں کے لیے وظائف اور سکالرشپس کا اہتمام کیا جائے۔
جب تعلیم، صحت اور معیشت جیسے شعبوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں تو ادبی اداروں کے نام پر قائم یہ سفید ہاتھی کیوں بچائے جا رہے ہیں؟ ان کی آڑ میں پلنے والے ادبی اور تدریسی مافیاز سے جان چھڑانا اب نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ قومی بقا اور فکری تحفظ کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ علم و ادب کے نام پر قائم یہ ادارے اگر اپنے وجود کا جواز کھو چکے ہیں تو ان کی صفائی ہی علم و دانش کے ساتھ اصل وفاداری تصور کی جانی چاہیے۔