فیصل زمان چشتی سے میری پہلی ملاقات کوئی لگ بھگ بیس سال قبل پاک ٹی ہاوس میں ہوئی لیکن ملاقات ایک دوستی کے رشتے میں ڈھلے 12 سال ہونے کو آئے ہیں۔ آج کے اس پیچدار دور میں اتنا بھلا مانس، اجلا اور صاحب خیر انسان کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ جیسے کہ میرا شعری عقیدہ ہے کہ پاکیزہ اور بڑا شعر کسی پاکیزہ اور بڑے دل والے پہ ہی اترتا ہے اور بار بار اترتا ہے۔ اس کڑے معیار پہ دیکھا اور پرکھا جائے تو آج کے اس شعرگھڑت عہد میں فیصل زمان چشتی گنتی کے اُن چند لوگوں میں آتا ہے جو اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔
فیصل زمان چشتی کے دو شعر دیکھئیے اور اگر اسکے بعد وہ مزید کچھ بھی نہ لکھے تو یہ دو اشعار ہی اسے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں زندہ رکھنے کیلیے کافی ہیں۔
شیوۂ اہلِ تصوف ہی نظر آتا ہے
دل مصیبت میں بھی لاچار نہ ہونے پائے
اشک شبنم سے بھی ہوتے ہیں زیادہ نازک
دیکھنا موئے پلک خار نہ ہونے پائے
لیکن اب ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ وہ گزشتہ تیس سالوں سے بس ایک ان دو اشعار کی بنیاد پر کھڑا ہے، وہ اب تک تین شعری مجموعوں سمیت درجنوں عمدہ غزلوں اور اَن گنت ارفع و اعلیٰ اشعار کا خالق ہے۔
میں برادرم اخترعثمان اور محترم خورشید رضوی صاحب جیسے متعدد شعراء گنوا سکتاہوں جو ہمارے اس عہدِ ناپرساں میں بھی مخصوص ادبی حلقوں میں عالم اور پختہ، استاد شعراء کے طور پر مانے جاتے ہیں لیکن اگر آپ انکے گزشتہ چالیس (اختر عثمان)، ستر (خورشید رضوی) سال کے شعری سفر کا جائزہ لیں تو تخلیقی، فکری یا فنی ارتقاء نام کی کوئی شَے نظر نہیں آئیگی۔ وہ جس معیار اور مرتبے کے اشعار آج سے دہائیوں پہلے کہہ رہے تھے حرام ہے کہ اس معیار سے ایک قدم پیچھے یا ایک قدم آگے بڑھے ہوں۔ البتہ اختر عثمان کے ہاں غزل کیساتھ ساتھ مرثیے اور تنقید کی صورت میں افقی سفر ضرور نظر آتا ہے لیکن میر انیس کے میدان میں جھنڈا لہرانے کی کوشش میں بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوا ہے۔ اخترعثمان تو بیچارے نہ تین میں تیرہ میں۔
جبکہ فیصل زمان چشتی کے ہاں قدم بہ قدم اور سال بہ سال ارتقاء اتنا واضح ہے کہ فیصل زمان چشتی کے ایک عام قاری سے لے کر خاص قاری تک اس کا قائل نظر آتا ہے۔ ایک عام نصابی اسلوب کے زیر اثر ملی و قومی انداز میں شعر کہنے والا فیصل زمان چشتی جب "ہجر کو بخشی دھڑکن" جیسے مجموعہ کلام تک پہنچتا ہے تو اردو ادب کو ایک نہایت بیساختہ، برجستہ اور اعلیٰ تخلیقی اوصاف سے بھر پور غزلیں کہنے والا صاحبِ اسلوب
شاعر نصیب ہوتا ہے۔ اشعار دیکھئیے۔۔
مفلسی کی نہیں تکلیف، نہ بیماری کی
میرا دکھ یہ ہے کہ بچوں سے اداکاری کی
دکھ تہِ تیغ کیے ہجر کو بخشی دھڑکن
اپنی جاگیر میں ہم نے بڑی سرداری کی
نہ مرا وصل سلامت، نہ رہا ہجر میں دم
دنیا والو! کوئی حد ہوتی ہے لاچاری کی
اپنے ترکش میں لیے تیر کہاں تک پہنچی
میرے پیچھے مری تقدیر کہاں تک پہنچی
کٹ گرا دل ترے پیغام کو پڑھتے پڑھتے
تو کہاں تھا، تری شمشیر کہاں تک پہنچی
٭٭٭
نائو جاتی ہے یا ہاتھوں سے کنارہ جائے
وقت جیسا بھی ہے خوش ہو کے گزارا جائے
فیصل کی سب سے نمایاں شعری خوبی اسکی بیساختگی اور برجستگی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسکے ہاں آمد کے اشعار کی فراوانی ہے۔ آپ کبھی غور فرمائیں تو بڑی آسانی سے محسوس کر لیں گے کہ ایک ایک شعر کو بار بار بہتر سے بہتر کرنے، کسا ہوا مصرعہ بنانے اور فنی سقم دور کرنے میں لگے رہنے والے شعراء کے ہاں بے ساختگی کی معدومی اور تاثیر سے محرومی انکے تخلیقی نصیب کی طرح انکے ماتھوں پر جَڑی نظر آتی ہے جبکہ اِن الفاظ اور در و بست کی مشق کی بنیاد پر شعر کہنے والوں کی نسبت احساس کی ریاضت سے سرشار شعراء کے ہاں دل پر اثر کرنیوالے اشعار کی باقاعدہ بہتات دکھائی ہے۔ فیصل زمان چشتی کے ہاں ادق سے ادق قافیہ ردیف بھی اتنی سہولت سے شعری مضامین کو اپنے دامن میں سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں کہ گمان تک نہیں گزرتا کہ ایسی مشکل زمین میں ایسی سولت سے اشعار کہے جا سکتے ہیں
غزل دیکھئیے۔۔
ہوتے ہی ذرا عشق کے آثار برآمد
آلام کے ہونے لگے انبار برآمد
مجنوں نے کیے جس طرح صحرائے عرب میں
ہوتے ہیں کہاں یوں در و دیوار برآمد
یوں اُٹھے تصور تیرا ویرانۂ دل میں
جیسے ہو کوئی اسپِ سبک سار برآمد
اک پل کیلئے آئی نظر ایک جھلک سی
چلمن سے ہوئی حسن کی رفتار برآمد
کب روتی ہوئی آنکھوں یہ رکھو گے دلاسہ
ہو جائے گا جب چشمۂ خونبار برآمد
بجنے لگیں گی گھنٹیاں کانوں میں تمہارے
ہونے تو دو، اُن ہونٹوں سے گفتار برآمد
جلتے ہوئے سورج کے تلے آئی تری یاد
ہوتے ہوئے دیکھے کئی اشجار برآمد
آئے تھے مری خانہ تلاشی کے لیے وہ
اور کرکے گئے ہیں کئی آزار برآمد
جس دشت میں صیاد کا قبضہ ہو وہاں پر
ہوتا ہے کہاں آہوئے غمخوار برآمد
سی دیتے ہیں لب، بات سے پہلے ہی ہمارے
ہونے ہی نہیں دیتے ہیں گفتار برآمد
ہائے تیرے وعدوں کے جرائم پہ میں صدقے
اقرار برآمد کبھی انکار برآمد
اُس شہر میں عزت کی طلب ہے کہ جہاں سے
ٹھوکر سے کیے دیتے ہیں دستار برآمد
اے بُت شکنو توڑ ہی ڈالو تو ہے اچھا
اور کر لو مِرے بُت سے مرا یار برآمد
جب سوچا کبھی ترک تعلق کا تو صاحب
سینے سے ہوا ہے دلِ عیار برآمد
ٹیکی ہی تھی پیشانی در شہر نبی پر
ہونے لگے ہر سمت سے انوار برآمد
فیصل نے غزل لکھی ہے رومی کی زمیں پر
اور خوب کیے ہیں کئی اشعار برآمد
فیصل زمان چشتی کے ہاں موضوعات کا ایسا تنوع ملتا ہے جو بڑے بڑے خود ساختہ عظیم شعراء اور اساتذہ فن کو نصیب نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر خالص انسان زندہ و تابندہ ہے۔ ہم جس دور ابتلاء میں سانس لے رہے ہیں زیادہ تر لوگ کمپرومائزز کا شکار ہو کے اپنے خالص انسان کو مار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ارد گرد نظر آنے والے شعراء کی اکثریت اپنے آپ کو چھوٹی چھوٹی اغراض، مجبوریوں اور معمولی دنیاوی فوائد کے عوض گروی رکھ کے سمجھتی ہے کہ الفاظ کی جوڑ توڑ ہی شاعری ہوا کرتی ہے۔ بے شک ایسے شعراء نام نہاد ہیں اور یہ خسارے میں بھی ہیں۔ جبکہ فیصل زمان چشتی جیسے شعراء جو زندگی بھر آلام اور صدموں کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں لیکن ضمیر کو امتحان میں نہیں ڈالتے، شاعری بھی ان پر اتنی ہی سخاوت سے مہربان ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیصل زمان چشتی جیسے خالص شاعر کے اندر سے جب شعر نکلتا ہے تو وہ اتنا ہی لافانی ہوتا ہے جتنا کہ درج ذیل۔۔
اس طرح چلتا ہوں میں دل کی پکڑ کر انگلی
جیسے بیمار کو لے کر کوئی بیمار چلے
فیصل زمان چشتی سلامت رہو کہ تم نے ایک بیاعتبار عہد میں اردو غزل کو اعتبار بخشاء ہے۔